دِل پہ دستک
ایک مرتبہ جاسوسی کرنے والے اہلکاروں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلا ع دی کہ ایک شخص ا پنی خطابت کی وجہ سے روز بروز مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ وہ جہاد کے بارے میں کچھ عجیب و غریب باتیں کرتا ہے۔ سلطان نے کہا جو دیکھا اور سنا ہے وہ سب بیان کرو۔اہلکاروں نے بتلایا کہ وہ کہتا ہے جہاد بالنفس، جہاد القتال سے افضل ہے، اپنے اہل خانہ کو رزق مہیا کرنا، علم حاصل کرنا اور اپنے نفس کو ضبط میں لانا یہ سب اعمال میدان جنگ میں جہاد کرنے سے افضل ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جواب دیا کہ ہاں، وہ ٹھیک کہتا ہے۔ یہ سن کر اہلکاروں کے چہروں پر سراسیمگی چھا گئی، سلطان نے جب اُن کے چہروں پر پھر بھی حیر ت کے آثار دیکھے تو کہا مجھے صاف صاف بتاؤ۔ ا ہلکاروں نے کہا کہ خطیب کہتا ہے کہ ان جنگوں نے ہمیں کیا دیاہے! جنگوں نے تو ہمیں قتل و غارت گری کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جنگوں کے نتیجے میں ہم کیا بنے! قاتل یا مقتول، یہ سنتے ہی صلاح الدین ایوبی اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُس سکالر سے ملاقات کرنے کامصمم ارادہ کر لیا۔ بھیس بدل کر ملاقات کے لیے جا پہنچے اور سوال کیا کہ حضرت کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ بیت المقدس کو بغیر جنگ کے ہی آزاد کروالیا جائے اور مسلمانوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں ان کو بغیر جنگ کے ہمیشہ کے لیے روک دیا جائے تو اُس سکالر نے جواب دیا کہ ”بس دعا کریں“۔ صلاح الدین ایوبی غصے سے لال پیلا ہوگیا اپنا خنجر نکالا اُس کی ایک انگلی کاٹ دی۔ جب وہ درد سے کراہنے لگا، سلطان نے کہا حقیقت بتاتے ہو کہ تمھاری گردن اُڑا دوں۔ وہ طوطے کی طرح بولنے لگا کہ" میں ایک یہودی ہوں " اور باقی ساری کہانی سنانے لگا۔ اُس دور میں بھی یہ فتنہ اپنے عروج پر تھا اور آج بھی مسلم مردوخواتین، بوڑھی عورتوں اور بچوں کو ذبح کیا جارہا ہے۔ جنگ کے گیارہ دنوں میں کبھی لاشیں ٹی وی پر دیکھنے کو ملتی رہیں تو کبھی سوشل میڈیا کو دیکھنے سے دل دہل جاتا رہا۔ مسلم آبادیوں پر بم گرائے جاتے رہے اور کبھی زہریلی گیس کے ساتھ ساتھ راکٹوں کی بھرمار نظر آتی رہی۔ دل اتنا مضطرب اور بے چین رہا کہ کہیں بھی چین نہیں پا رہاتھا۔ یورپی میڈیا کے مطابق 300 سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور لوگوں کے آشیانے لاتعداد گرائے جا چکے ہیں۔ ساری ملت اسلامیہ بے حس و حرکت تختہ موت پر دراز ہے ایسا محسوس ہو تا تھا فلسطینی مسلمانوں کا خون تمام مسلم اُمہ کے نزدیک پانی کے بہنے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اسرائیلی افواج مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر اُس کی بے حرمتی کرتی رہیں، نمازیوں پر گیس شیلنگ ہوتی رہی مگر سوائے حماس کے کہیں سے مدد نہیں آئی، کوئی سہارا نظر نہیں آیا۔ کبھی کسی ویڈیو میں مسلمان عورتیں دُعا کرتی رہیں کہ اے اللہ تو ہی ہماری مشکل آسان فرما۔ کسی ویڈیو میں ایک چھوٹی بچی اپنے تباہ شدہ گھر میں اپنے والدین اور بھائیوں کو نیست و نابود دیکھ کر پوری مسلم اُمہ کو مدد کے لیے پکارتی رہی۔ یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ کا ڈائریکٹر بھی اپیل کرتا رہا کہ کوئی اسلامی ملک ہی آکر ہمیں بچائے ورنہ یہودی تو مسجد اقصیٰ پر چڑھائی کر چکے ہیں۔ گیارہ دن آنکھیں اشکبار اور دل فگار رہا۔ اسلامی ممالک کے سربراہان محض کھوکھلے بیانات پر ہی اکتفا کرتے رہے۔ سوچتا ہوں کاش میرا جسم ہی ایسی دیوار بن جاتا جو اُن مسلمانوں کی طرف آتے ہوئے گولے، راکٹ، زہریلی گیس اور میزائلوں کو روک سکتایا مسجد اقصیٰ پر غلیظ وناپاک جوتوں کو اُس مقدس مسجد میں اندر آنے سے ہی روک سکتا۔ مسجد اقصیٰ جس کے بارے قرآن مجید میں چار بار مختلف مقامات پر ”برکنا“ کا لفظ استعمال کیا گیا اور یہ بھی فرمایا کہ ہم نے اس کے اِرد گرد برکت رکھی ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے 16یا17 مہینے تک اللہ کے پیارے محبوب حضرت محمدؐ کی محبت میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔اللہ کے رسولؐ معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے بیت المقدس لائے گئے،جہاں آپؐ کی اقتداء میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاؑ نے نماز پڑھی۔ بے شمار فضائل جو ہمیں قرآن مجید اور روایات میں فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں ملتے ہیں، مگر قومی اسمبلی کی ایک رکن اس بات پر زور دیتی رہی کہ مسجد اقصیٰ یہودیوں کا قبلہ اور خانہ کعبہ مسلمانوں کاقبلہ ہے اس لیے ہمیں اسرائیل کو بھی تسلیم کر لینا چاہیے۔ پوری دنیا کی ہیومن رائٹس کی تنظیمیں، OIC کے ممبران، اقوام متحدہ، عرب ممالک کے امیر ترین حکمران اور مسلم ممالک کی فو جیں یہ تمام لوگ کہاں ہیں؟ غیر مسلم دنیانے اور ہم نے خود مل کر جہاد کو دہشت گردی کا نام دیا، جس کی بدولت آج یہود و نصاریٰ مسلم ممالک کو باری باری ظلم و وحشت کا نشان بنا رہے ہیں۔ فلسطین پر قیامت صغریٰ بپارہی۔ مسلمانوں کا تیسرا مقدس مقام اور قبلہ اول لہولہان رہا۔ سورۃ النساکی آیت نمبر 75 جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑو اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دُعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اس شہر سے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار بنادے"کسی نے اس آیت کی پکار کو نہیں سنا۔ مسلم ممالک کی عسکری قوتیں تو بے حسی کی انتہا کو پہنچ چکی تھیں مگر روس اور چین معاملے میں آپہنچے حتیٰ کہ غیر مسلم بھی پوری دنیا میں سڑکوں پر نکل آئے جس کی بدولت گیارہ دنوں کے ظلم کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کیا اسرائیل کبھی دوبارہ یہ حرکت کر ے گا اورکیا ہم بھی اپنے معاملات اور اخلاقیات کو بہتر کر سکیں گے۔کیاکر پشن، لو ٹ مار اور ذخیرہ اندوزی جیسے بھیانک اور زوال پذیر اعمال سے خو د کو بچا سکیں گے۔ کیا مسلم ممالک کے سربراہان خواب غفلت، مفادات کی جنگ اور لالچ سے باہر نکل کر ایک انسان بن کر بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کیا اُن کے دلوں پربھی یہ دستک شروع ہوجائے گی۔