پہاڑی ڈھلوانوں پر، کھیتوں میں، سڑک کے آس پاس ہر طرف گلاب ہی گلاب تھے
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط :87
”پھر؟“
”لوگ بولتا ہے کہ 8 لاکھ لینے سے بہتر ہے کہ ہم کو ئی پیسا بھی نہیں لیتا۔ حکو مت سارا پیسا اپنے پاس رکھے۔“
باقی دوست گفتگو میں حصہ نہیں لے رہے تھے اور عدم دلچسپی کے ساتھ ارد گرد کے منظر کو دیکھ رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے میرے دوستوں کے لیے اب کسی چیز یا منظر میں دل چسپی باقی نہیں رہی تھی۔
”ادھر کو ئی اور پُل بھی ہے حسینی کے پُل جیسا؟“ میں نے نذیر سے پو چھا۔
”ایدر ہے ایک پسو میں۔“
”وہ کدھر ہے؟“میں نے خو شی اورنئے جو ش سے پو چھا۔
”ایدر پاس ہی ہے۔ کسی سے پو چھے گا تو وہ بتا دے گا۔“
”ادھر جانے میں کتنا دیر لگتا ہے؟“
”دو تین گھنٹا لگ جاتا ہے۔“نذیر نے جواب دیا۔
گا ڑی پسو میں دا خل ہو ئی۔ ایک دوسرے سے دور دور چند گھر جو اس وقت بے آ باد لگتے تھے۔ یہ وادی ہنزہ میں گلاب کا موسم تھا۔ جا بجا جنگلی گلاب کی جھا ڑیاں سرخ اور گلا بی پھو لوں سے لد ی ہوئی تھیں۔ پہاڑی ڈھلوانوں پر، کھیتوں میں، سڑک کے آس پاس ہر طرف گلاب ہی گلاب کھلے تھے۔ ان کا تازہ خوشگوار رنگ نگا ہوں کو خوبصورت لگتا اور دل کو ایک نئی خوشی سے سر شار کر تا تھا۔ میں نے اس سے پہلے ہنزہ کا یہ رنگ نہیں دیکھا تھا۔
پسّو اِن (PASSU INN) کا نذر علی اداس:
نذیر نے اپنی جیپ چوک میں واقع ہو ٹل ”پسو اِ ن“کے باہر روک لی۔ سیب اور چیری کے درختوں میں چھپا”پسو اِ ن“ یہاں کا سب سے مہنگا اور نسبتا ً اچھا ہو ٹل ہے۔ مسافر اس قسم کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوتا لیکن نذیر کی دی گئی اطلاع کے مطا بق عزت اللہ بیگ کا ”بتورا اِ ن“ (Batura Inn )چینی لو گوں کے زیر ِ استعمال تھا اس لیے مقامی لوگوں( Natives) کو وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے جانے کیوں برطانوی ہندوستان یاد آگیا۔ ہم پسو اِن کے احا طے میں دا خل ہو ئے اور سیب کے درختوں والے با غیچے سے گزر کر 3سیڑھیوں کی بلندی پر بنے ریستوران میں داخل ہوئے۔ اندر میز کرسیاں سلیقے سے لگے ہو ئے تھے۔ دیواروں پر ٹریکرز کے لیے فریم شدہ نقشے اور مقامی چوٹیوں اور مناظر کی تصویریں ٹنگی تھیں۔ دروازے کے ساتھ کاو¿نٹر تھاجس پر چند کا غذ اور ایک خا لی کپ پڑا تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے دیوار پر”ہز ہائی نس“کی فریم کی ہو ئی چھوٹی تصویر آویزاں تھی۔ فرش پر ایک پرا نا کارپٹ بچھا ہوا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر ہال کے دوسرے سرے پر موجوددروازے سے تقریباً 30 سالہ جوان آ دمی اندر آیا۔ اس نے سفید جو گرز پر خا کی پینٹ اور سرخ سفید دھاری دار ٹی شرٹ پہن رکھی تھی، شرٹ پر پینٹ کی ہم رنگ نائلون کی بے آ ستین کی جیکٹ تھی۔ سر پر سفیدکیپ اور آنکھو ں پر موٹے شیشوں کی عینک تھی جس کے پیچھے اس کی چھو ٹی اور اداس آ نکھیں تھیں۔ شیو بھی ہفتے بھر کی بڑھی ہو ئی لگتی تھی۔چہرے پر اداسی اتنی گہری تھی کہ جلد کے اندر اتری ہو ئی محسوس ہو تی تھی۔ یہ نذر علی تھا، پسو اِن کا مالک۔ ایک اداس اور تنہا روح۔ وہ بات مختصر اور کم کرتا تھااور دوران ِ گفتگو مخاطب سے آ نکھ بھی ہی کم ملا تا تھا اور اگرمجبو را ً ایسا کرنا بھی پڑتا تو اس کی نگاہ مخاطب تک پہنچنے کے بجائے کہیں راستے ہی میں خلا ءمیں رک جاتی تھی یا مخاطب کے سر کے اوپر سے یا کندھے کے دائیں بائیں سے دور نکل جاتی۔ہمیں دیکھ کر نذر علی کے چہرے پر پیشہ ورانہ مسکراہٹ بھی نہیں آئی۔ مجھے پہلی نظر میں وہ Anthropophobia (مردم بے زاری) میں مبتلا آ دمی لگا۔ اس کا نام نذر علی اداس ہو نا چا ہیے تھا۔
”جی؟“ اس نے سرد سے لہجے میں پو چھا۔
”ہم کمرے لینا چا ہتے ہیں۔“ میں نے دوستانہ مسکرا ہٹ کے ساتھ کہا۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔