”ہر طرف آگ لگی ہے“

 ”ہر طرف آگ لگی ہے“
 ”ہر طرف آگ لگی ہے“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 چند روز قبل ضلع خوشاب کی تحصیل نوشہرہ میں واقع اُچھالی جھیل کے پاس ایک شام کچھ وقت کے لئے رُکنے کا اتفاق ہوا۔کافی عرصہ سے بارشیں نہ ہونے کی بنا پر جھیل کی سطح آب ایک مٹیالی تہہ کے نیچے چھپ چکی تھی۔شام کے دھندلکے میں اُجڑے اُجڑے سے پہاڑوں کے پہلو  میں  تاحدِّ نگاہ جھیل کا جامد پانی شام کو اور اُداس کیے دیتا تھا۔پانی سے اٹھنے والی باس اعصاب پر گراں گزر رہی تھی۔سکیسر پہاڑی کے اوپر واقع ائیر فورس کے ریڈار کے دوسری جانب آگ کے شعلے بھڑکتے ہوئے دکھائی دیئے۔میں نے اپنے میزبان سے آگ کے شعلوں کی وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگے کبھی کبھار لکڑی چور اور کبھی دیگر مکرو دھنداسے جُڑے پیشہ ورلوگ آگ لگاتے رہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پہلے یہاں آئے روز بادل،رم جھم اور بارش کا سما ں بندھارہتا تھا،پہاڑ سبزے سے ڈھکے رہتے تھے اور درخت کثیر تعداد میں موجود تھے۔ لیکن فطرت اور انسان جیسے باہمی اتفاق سے علاقے سے اس کا حُسن نوچنے کے درپے ہیں۔ آسمان سے شعلے اُگلتے سورج نے سبزے کوخس وخاشاک میں بدل کے رکھ دیا ہے، درختوں کو پیسے کے لالچ میں یا غربت کے باعث لوگوں نے کاٹ ڈالا ہے اور دوسری طرف مافیا کے لوگ بلندیوں پر موجود درختوں کو آگ لگا کر ان کا صفایا کرتے جا رہے ہیں۔سورج اور زمینی شعلوں نے مل کر پہاڑوں اور جھیلوں کے حسن کوبری طرح متاثر کیا ہے،جس کے باعث سیاحوں کے لئے کشش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔


مجھے اُچھالی سے لاہور کے لئے صبح سات بجے نکلنے والی بس پر سوار ہونا  تھا۔لہٰذا نمازِ فجر کے بعد سونے کا خیال بھی عبث تھا۔میں نے اپنے کمرے سے نکل کر تھوڑی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر اطراف میں نظر دوڑائی تو صبح کے سکوت میں،چارسُو فطرت جیسے میرے گلے لگ کر رو رہی ہو اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہو کہ خدارا میرے حُسن اور دلکشی کو آگ کے اَلاؤ سے نکال لیجئے۔بس اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہوئی،اُچھالہ گاؤں کے قریب سے کلر کہار کو ملانے والی پہاڑی پر آہستہ آہستہ بلندہوتی گئی۔میں نے محسوس کیا کہ بس جوں جوں مزید بلندی کو چھو رہی تھی، زمین پر موجود تعمیرات،حیوانات و نباتات اور انسانوں کی جسامت بتدریج گھٹتی جا رہی تھی۔میرے اندر کے انسان نے مجھے جھنجھوڑ کر کہا تم تو محض ڈھلوان سے بلندی کی طرف جاتے ظاہری جسامتوں کے فرق پر پریشان ہو رہے ہو۔ یادرکھو! اس ڈھلوان اور بلندی کا تعلق صرف زمینی جسامت سے نہیں بلکہ انسان جوں جوں دولت، سماجی، سرکاری اور مذہبی رتبے میں بلندی کی طرف بڑھتا جاتا ہے، توں توں اپنے گردوجوار میں موجود لوگ اسے چھوٹے سے چھوٹے نظر آنے لگتے ہیں۔اُس کو اُن کی اور اپنی برابر کی جسامت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب کسی اَنہونی کی بنیاد پر وہ بلند چوٹی سے ڈھلوان پر آ گرتا ہے۔لیکن جب تک وہ اس بلندی پر رہتا ہے وہ زمین پر آگ لگائے رکھتا ہے۔


ہماری بس بل کھاتی، اُترتی،چڑھتی،پگ ڈنڈی نُما سڑک پر چلتی رہی۔ میری آنکھوں کے سامنے جُھلسے ہوئے پہاڑ وں کا ایک سلسلہ تھا۔ بالآخر بس اُس پہاڑی کے قریب سے گزری جہاں تازہ آگ کے بھانبڑ ”جشن ِ بربادی ئ اشجار“ منا رہے تھے۔سوچوں کے لامتناہی اذیت ناک سفر کے ساتھ ساتھ زمینی سفر بھی کٹ رہا تھا۔پنڈی بھٹیاں کے قریب پہنچے تو موٹر وے کے اطراف میں جوبن میں جھومتی مُٹیاروں کی طرح،بل کھاتے، لہلہاتے،سبز ادائیں بکھیرتے،جلتے ہوئے درختوں کی تڑک تڑک چیخیں نکل رہی تھیں جو زبانِ حال سے کہہ رہے تھے ہم تو مسافروں کے سفر کی تھکن میں خشک سڑک کے اطراف میں آنکھوں کو تراوٹ بخشتے ہیں،کالا سیاہ دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے بیچ میں آپ کو تازہ آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں کیوں آگ لگا رہے ہو؟مگر کوئی بھی تو نہ تھا جو اُنہیں اُن کی چوٹی تک جلاتے ہوئے شعلوں کو بجھاتا۔میں نے اپنی آنکھوں کی نمی کو صاف کرتے ہوئے اپنی توجہ سوشل میڈیا کی طرف کرنے کی کوشش کی تو ”جلتی ہوئی“ شہہ سُرخی نے میری توجہ کھینچ لی۔لکھا تھا اپنے”تعاقب میں لگے“لوگوں کی تعداد بڑھانے کے لئے ایک ٹِک ٹاک”فنکارہ“نے مارگلہ پہاڑی میں درختوں کو آگ لگا دی ہے۔
آگ لگنے اور لگانے کے واقعات بھلے وہ موٹروے کے اطراف میں ہوں یا پہاڑوں کی بلندیوں پررونما ہوں،لگانے والوں کے بارے میں کسی تادیبی کاروائی کا شاذونادِر ہی کبھی سُننے یا پڑھنے میں آتا ہے۔لہٰذا سماج میں بلندیوں کی طرف اُٹھتے ہوئے لوگ،زمین پررینگتے ہوئے نفوس کے درمیان آگ لگانا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔


دنیا میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی آگ، دھوئیں اور صنعتی اخراج کی مرہونِ منت ہے۔ان عناصرِ آلودگی میں سے وطن ِ عزیز میں آگ کو ”خاص مقام“ حاصل ہے۔آج سورج اپنی حیاتِ جاوداں میں وقت کی شدید ترین تپش سے زمین کے بسنے والوں کو اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے،جسے اہل ِ وطن اپنے اَخلاقی گناہوں کی سزا گردانتے ہیں،مگر اُن کی نظر اپنے ”ماحولیاتی گناہوں“پربالکل نہیں جا پاتی۔سورج اور جنگلوں کی آگ کو تو چھوڑیے،بازا ر میں جائیں تو پتہ چلتا ہے،گوشت سبزیوں اور پھلوں کے داموں کو آگ لگی ہے۔اخبار پڑھیں تو سونے کی قیمت کو آگ لگی بتائی جاتی ہے۔ٹیلی ویژن کی سکرین سامنے آئے توڈالر شعلے برساتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر نوع کی آگ سے قطعہ نظر سوشل میڈیا پر سیاسی اور مذہبی آراء نگاہ سے گزریں ہیں تو الفاظ بھڑکتے دکھائی دیتے ہیں۔ سٹیج پر کھڑا  راہبر خطاب و بیان سے شعلے اَلاپتا دکھائی دیتا ہے۔یہ آگ کا سلسلہ اتنا گھنا اور مسلسل ہے کہ اہل ِ وطن کے میل ملاپ میں، اظہار و بیاں اور لین دین میں بھی ”جلوہ زَن“ ہے، جو میٹھے بولوں،رواداری،مروت،بھائی چارے اور خلوص کے جذبوں کو آہستہ آہستہ خاکستر کر تا چلا جا رہا ہے۔
کوئی مسیحا تو ایسا دکھائی دے جو زمینی آگ کو روکنے کے لئے قانون کی پاسداری کو یقینی بنائے اور روّیوں میں بھڑکتے اَلاؤ کو گلزار بنانے کے لئے مکتب و مدرسہ، منبر اور میڈیا پر گفتگو کے ضوابط و تربیت کی داغ بیل ڈالے۔جلدی کیجیے،کہیں ایسا نہ ہوکہ آگ کی شدت اور اس کا پھیلاؤ املاک و اقدار کو خاکستر کر ڈالے۔

مزید :

رائے -کالم -