سرکاری مفت خورے

 سرکاری مفت خورے
 سرکاری مفت خورے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 مان لیتے ہیں سرکار کہ پٹرول و ڈیزل کی قیمت بڑھائے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا، آئی ایم ایف اکڑا ہوا تھا اور خزانے میں پیسہ نہیں تھا، سو ایسے میں عوام ہی سافٹ ٹارگٹ تھے جن پر پٹرول بم گرا دیا گیا۔ رات جب اچانک قیمتیں بڑھانے کا اعلان ہوا تو لوگ سارے کام چھوڑ کر پٹرول ڈلوانے نکل کھڑے ہوئے۔ لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں، خواہش یہ تھی کہ 12بجے سے پہلے آخری بار150 روپے فی لیٹر والا پٹرول ڈلوا لیا جائے، جو پچھلی حکومت یعنی اپنے پیارے کپتان کی نشانی تھا۔ پٹرول پمپ مالکان کو جب علم ہوا بیٹھے بٹھائے اُن کی لاٹری نکل آئی ہے تو انہوں نے پٹرول پمپ ہی بند کر دیئے، جو کھلے تھے وہ فی لٹر کے حساب سے پٹرول دے رہے تھے، کار والوں کو چار لٹر سے زیادہ نہیں مل رہا تھا۔ ارے پیارے بھائی مفتاح صاحب یہ اعلان شام کے وقت ہی کر دیتے، تاکہ لوگ چند روپوں کی بچت ہی کر لیتے، لیکن صاحبو! اُس بم کا فائدہ ہی کیا جو بتا کر مارا جائے۔ ساری قوم اس پٹرول بم کی وجہ سے پریشان ہو گئی ہو گی سوائے اُن مراعات یافتہ سرکاری طبقوں کے جنہیں پٹرول فری ملتا ہے۔اُن کے لئے پٹرول چار سو روپے لٹر بھی ہو جائے تو ان کے لئے اس میں کوئی بری خبر نہیں ہوتی،کیونکہ انہیں تو پٹرول لٹروں کے حساب سے ملتا ہے، عجیب چکر بازی ہے، فی سیکرٹری اتنے لٹر پٹرول فری ملے گا،فی جج اتنے لٹر فری ہیں، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر تک نے اپنے لٹر مخصوص کرا رکھے ہیں انہیں اگر پٹرول الاؤنس دیا جائے تو شاید پٹرول مہنگا ہونے پر انہیں کوئی پریشانی لاحق ہو،انہوں نے تو یہ جھگڑا ہی نہیں رکھا اور اپنے لٹرز کا کوٹہ حاصل کرتے ہیں۔مثلاً انہیں اس سے کوئی غرض نہیں، پہلے دو سو لٹر پٹرول انہیں تیس ہزار کا ملتا تھا، اب وہی پٹرول38ہزار روپے کا ملے گا۔ یہ تو سرکار نے پیسے دینے ہیں، خزانہ خالی ہو یا بھرا ہوا،ان کے اللے تللے تو اسی طرح جاری رہتے ہیں۔


مجھے پریس کلب ملتان کے جنرل سیکرٹری سینئر صحافی نثار احمد اعوان نے بتایا کہ ڈی سی ملتان کے پول پر سات گاڑیاں ہیں، ساتوں گاڑیوں کا پٹرول سرکاری کھاتے سے ڈلوایا جاتا ہے، کچھ ملازمین کے استعمال میں ہیں،کچھ اہل خانہ کے اور ڈی سی صاحب اپنی سرکاری گاڑی کے علاوہ بھی ملازمین کے ساتھ دوسری گاڑیاں لے کر چلتے ہیں۔اب سات گاڑیوں کا پٹرول بل کتنا ہو گا یہ تو چلتی بھی بے دریغ ہیں،کیونکہ پٹرول کا تو ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا، صرف ایک نہیں،بلکہ ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر اسی طرح شاہانہ بیڑے کے ساتھ پھرتا ہے، پھر ڈویژن میں کمشنر، تحصیل میں اسسٹنٹ کمشنر، پولیس کے افسر، مختلف محکموں کے کارپردازان، غرض کہاں کہاں یہ عوام کے خون پسینے سے درآمد کیا جانے والا پٹرول مالِ غنیمت سمجھ کے اڑایا نہیں جاتا۔ یہ تو ضلعوں اور ڈویژن کی حالت ہے اور سیکریٹیریٹ کی  سطح پر چلے جائیں تو ایک  سیکرٹری نے محکمے کی کئی کئی گاڑیاں اپنے ذاتی استعمال میں رکھی ہوئی ہیں،سرکاری گاڑی کے لئے یہ سب چھوٹے بڑے عمالِ حکومت اس لئے مرے جاتے ہیں کہ اُس کی وجہ سے انہیں فری پٹرول مل جاتا ہے،جس طرح مفت کی شراب بے دردی سے استعمال کی جاتی ہے،اُسی طرح مفت کا پٹرول بھی انتہائی بے درجی سے پھونکا جاتا ہے۔کبھی یہ اعداد و شمار بھی سامنے آئیں کہ ہر سال کتنے ارب روپے کا پٹرول ان وزیروں، مشیروں، افسروں اور سرکاری عمال کی گاڑیوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جس کا بوجھ غریب قوم اٹھاتی ہے۔ رات کسی پٹرول پمپ پر آپ کو کوئی سرکاری گاڑی نظر نہیں آئی ہو  گی، جو بارہ بجے سے پہلے سستا پٹرول ڈلوانے آئی ہو۔یہ عوام کا مسئلہ ہے کہ وہ ایک لٹر پر 50 روپے بچانے کے لئے کئی کئی گھنٹے لائن میں لگ کر باری کا انتظار کرتے ہیں۔


عمران خان جب اقتدار میں آئے تھے تو اُن کے خواب بڑے اونچے تھے۔وہ حکومت کے غیر ضروری اخراجات کم کرنا چاہتے تھے، جن میں یہ پٹرول کے اخراجات بھی شامل تھے،انہوں گورنر ہاؤسوں کو ختم کر کے تعلیمی اداروں کو دینے یا عوام کے لئے کھولنے جیسے دِل خوش کن اعلان بھی کئے۔ بچت کرنے کا اِس قدر جنون تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں تک فروخت کر دیں، مگر اب جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں، اُن کے مطابق انہوں نے بنی گالا سے وزیراعظم ہاؤس تک ہیلی کاپٹر سے جانے آنے میں ایک ارب روپے خرچ کر دیئے۔ظاہر ہے اس میں پٹرول کا خرچ بھی شامل ہو گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا کہ وہ حکومتی سطح پر کوئی بچت کا منصوبہ رکھتے ہیں وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ عوام کو ریلیف دیں گے لیکن یہ نہیں کہتے کہ سرکاری عمال کی عیاشیوں کو ختم کریں گے۔ایسا وہ کر بھی نہیں سکتے، کیونکہ اس ملک کی بیورو کریسی اتنی تگڑی ہے کہ اُس نے نیب کے قانون کو تبدیل کرا دیا ہے اور اب وہ سب نیب کے شر سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے محمد خان جونیجو کو یہ خیال آیا تھا کہ سرکاری خرچ کو کم کرنے کے لئے افسروں اور جرنیلوں کو چھوٹی گاڑی میں بٹھایا جائے۔ اُن کے اس حکم پر بڑی واہ واہ ہوئی تھی تاہم یہی حکم انہیں مہنگا پڑا۔اس پر وہ عملدرآمد تو نہ کرا سکے البتہ اُن کی حکومت جلد ہی ختم کر دی گئی۔ ضیاء الحق نے ایک بار سادگی کو فروغ دینے کے لئے سائیکل پر دفتر آنے جانے کا اعلان کیا، مگر اُن کی یہ مہم بھی ناکام ہو گئی،کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے اس آئیڈیے کو  ناقابل عمل قرار دیا۔


اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت موٹر سائیکل استعمال کرنے والوں کے لئے تیل پر ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کو شاید اس پر بھی اعتراض ہو یہ آئی ایم ایف والے بھی بڑے خود غرض ہیں یہ ہمیشہ غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین لینے کی بات کرتے ہیں،اُس پر زور دیتے ہیں،کبھی یہ مطالبہ آئی ایم ایف نے نہیں کیا کہ سرکاری افسروں کو پٹرول کی مفت سہولت واپس لی جائے انہیں گریڈ کے حساب سے یکمشت ایک خاص رقم پٹرول الاؤنس کی مد میں ادا کی جائے۔کاش آئی ایم ایف والے کبھی یہ بھی کریں،شاید انہی کے دباؤ پر ہمارے حاکمانِ وقت کو یہ خیال آیا جائے کہ ساری قربانیاں غریبوں سے مانگنا درست نہیں کچھ قربانی اس ملک کے مراعات یافتہ طبقوں اور اشرافیہ کو بھی دینی چاہیے جو عوام کے ٹیکسوں پر پلتا ہے اور ظلم بھی عوام پر ڈھاتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -