اِک چراغ اور بجھا،اشرف ممتاز بھی چلے گئے!

اِک چراغ اور بجھا،اشرف ممتاز بھی چلے گئے!
اِک چراغ اور بجھا،اشرف ممتاز بھی چلے گئے!

  


”اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی“ یہ جمعہ کا روز تھا میںنماز جمعہ سے واپس آکر اپنے دفتری امور کی نجام دہی میں مصرو ف ہو گیا۔ سرکھجانے کی فرصت نہیں تھی کہ صفحہ کی تکمیل بروقت لازم تھی۔ اس دوران واٹس ایپ پر بھی نظر ڈالنا ہوتی ہے۔ وقت گزرتا چلا گیا اور پھر فیس بک پر نظر گئی تو ایک دوست کی پوسٹ نے گم صم کر دیا، میں اسے پڑھتا ہی رہ گیا اور آنکھیں بے اختیار ہو کر چھلک پڑیں۔ بڑی مختصر اطلاع تھی کہ سینئر صحافی اشرف ممتاز کا انتقال ہو گیا۔ میرے لئے یہ خبر اچانک تھی اور دل یقین نہیں کر رہا تھا، ابھی دو روز قبل تو ان کے ساتھ فون پر کافی طویل گفتگو ہوئی۔ یہ ان کا معمول تھا کبھی میرے دفتر آ جاتے، آمد سے پہلے یہ بھی تصدیق کرتے کہ محترم مجیب الرحمن شامی بھی دفتر میں تشریف رکھتے ہیں، اگر یہ اتفاق بھی ہو جاتا وہ مجھے مل کر پہلے شامی صاحب کی طرف چلے جاتے اوران کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد پھر آتے اور کافی وقت گزار کر جاتے۔ ہم حالات حاضرہ پر تو بات کرتے لیکن یہ گفتگو ماضی کی یادیں لئے ہوتی تھی۔ محمد اشرف ممتاز پیشہ صحافت میں ان دوستوں میں سے تھے جو خال خال ہی ہوتے ہیں، ان کے ساتھ فیلڈ میں طویل عرصہ کام کرنے کا موقع ملا، ہم دونوں اس لحاظ سے بھی ہم مزاج تھے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن ،ہمارے لئے سب محترم تھے اور ہیں تاہم کوشش یہ ہوتی کہ ہم نہ تو کسی کی دل آزاری کریں اور نہ ہی کسی کو ”ڈھیل“ دیں۔ ہم نے طویل عرصہ سیاسی رپورٹنگ کی۔ سیاسی قائدین سے ذاتی تعلقات بھی ہوئے اور ہیں لیکن یہ سب ہمارے فرض کی راہ میں کبھی حائل نہ ہوئے۔
میں اپنی پارسائی کا تو دعویٰ نہیں کرتا لیکن اشرف ممتاز کے بارے میں حلف دے کر کہہ سکتا ہوں کہ ان سے کبھی بددیانتی نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی خبر میں کوئی ڈنڈی ماری گئی۔ اس کی ایک مثال دے سکتا ہوں۔ اشرف ممتاز کی رہائش فیروز روڈ کے عقب میں تھی اور ان کے گھر جانے سے پہلے میرے عزیز اور پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما نوید چودھری کا دفتر آتا تھا(اب وہ ڈیفنس میں جا چکے ہیں) ان کا سیاست سے تعلق یونیورسٹی کے دور سے ہے اور یہ دفتر ایک دوستانہ بیٹھک بن گیا ہوا تھا، صحافی دوست ادھر سے گزرتے ہوئے یہاں آ جاتے اور گپ شپ ہوتی اور خبر بھی مل جاتی ۔ نوید چودھری کے ہاں پیپلزپارٹی اور اس کے علاوہ دوسری جماعتوں کے رہنما بھی آتے تھے۔ عموماً ان کی جماعت کے اہم رہنما میڈیا سے بات کرنے کے لئے اس دفتر کو فوقیت بھی دیتے۔ یوں نوید چودھری اپنے دفتر کو چھوٹا پریس کلب کہتے تھے۔ بات طویل ہوتی جا رہی ہے بتانا یہ تھا کہ عموماً دوپہر کا وقت ہوتا تو لنچ کا بھی اہتمام ہو جاتا، اشرف ممتاز بھی اکثر آتے اور ہمارے ساتھ گفتگو میں شریک ہوتے یا پھر کسی رہنما کی بات چیت سنتے اور کوریج کرکے جاتے۔ ہم گناہ گار لوگ تو کھانے اور چاءوغیرہ سے انصاف کر لیتے لیکن اشرف ممتاز ہمیشہ اجتناب کرتے اور یہ کہہ کر معذرت کر لیتے کہ میں گھر سے آیا ہوں اور کھا کر آ رہا ہوں، ان کی یہ عادت مسلسل تھی اور وہ حتی الامکان کچھ نہیں کھاتے تھے۔ اکثر پانی پی کر ٹال جاتے تھے۔ میں اکثر ان سے کہتا یہ مہمان نوازی ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ ہم میزبان کو ناراض نہ کریں، لیکن ان کا اپنا اصول تھا اور وہ اہم سے اہم مقام پر بھی اس پر قائم رہتے تھے۔
محمد اشرف ممتاز کی پیشہ صحافت سے لگن بھی کم نہیں تھی۔ وہ ہمیں بھی اکساتے رہتے تھے ۔آج میں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ انہی نے مجھے مجبور کیا اور اکسایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے ”آف دی ریکارڈ“ ملاقات ہونا چاہیے کہ تبادلہ خیال سے قومی اور بین الاقوامی پس منظر سے بھی آگاہی ہوتی ہے اور پھر میں نے ایک دوبار اصرار کے بعد محترمہ کو منا لیا اور ہماری یہ ملاقات میاں مصباح الرحمن کے گھر ہوئی۔ میڈیا سے گفتگو اور لنچ کے بعد دو تین پارٹی رہنماﺅں کی موجودگی میں محترمہ نے ہمیں دو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ وقت دیا اس دوران انہوں نے اپنے نجی امور کے حوالے سے بھی بہت انکشاف کئے۔ یہ ملاقات آف دی ریکارڈ تھی اور ایسے ہی رہی ہم دونوں نے اس کی مکمل پابندی کی میں اشرف ممتاز اور خواجہ فرخ سعید (مرحوم) کے علاوہ سعید آسی جیسے صحافی اس امر کے قائل اور اس پر عمل پیرا تھے کہ ”آف دی ریکارڈ“ کہی گئی بات یا گفتگو اشاعت پذیر نہیں ہونا چاہیے ، چنانچہ جب کبھی کوئی دوست ”مخصوص مقصد“ کے لئے کسی رہنما سے سوال کرکے جواب چاہتے اور جواب نہ ملتا تو فرمائش کرتے ”آف دی ریکارڈ“ ہی بتا دیں، ہم میں سے کوئی بھی بول اٹھتا ہمارے لئے یہ آف دی ریکارڈ نہیں ہو گی ، ہم بخوبی جانتے تھے کہ کچھ بھی چھپا نہیں رہے گا۔
محمد اشرف ممتاز کا تعلق انگریزی جرنلزم سے تھا اور روزنامہ ”ڈان“ لاہور کے چیف رپورٹر کی حیثیت سے طویل عرصہ کام کیا او رپھر ایک محترم دوست سے تعلق کی خاطر یہاں سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور روزنامہ ”دی نیشن“ میں ایڈیٹر رپورٹنگ کی ذمہ داریاں نبھائیں اور یہاں سے وہ نیوز چینل 24کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔ دکھ یہ ہے کہ یہاں ان کی محنت اور دیانت اور اہلیت کام نہ آ سکی اور اسی دوست نے ان کی فراغت میں حصہ ڈالا جو ان کو ڈان سے ریٹائر کرا کر ساتھ لے گئے تھے۔ اس حوالے سے وہ بہت دکھی تھے اور اظہار افسوس کرتے تھے کہ ان کو فارغ کرنے کے لئے عذر تراشا گیا، حال میں وہ کسی ادارے سے وابستہ نہیں تھے البتہ ’عرب نیوز‘ کے لئے تجزیاتی مضمون لکھا کرتے جب ان سے عرض کی کہ وہ واپس ”ڈان“ چلے جائیں۔ میںظفر عباس صاحب سے بات کر لیتا ہوں تو انہوں نے جواب دیا یہ غیر مناسب ہوگا کہ میں نے خود ہی ریٹائرمنٹ لی تھی، جب ان پر زور دیا کہ وہ کسی اور ادارے سے رجوع کریں، اجازت دیں تو میں بھی اپنے چیف ایڈیٹر صاحب سے کہوں کہ وہ کسی ادارے کے لئے بات کریں تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آج کا دور Objective جرنلزم کا نہیں، آج کل صحافی کو بھی کسی نہ کسی رجحان کا ساتھ دینا ہوتا ہے جو میں نہیں کر سکتا۔ میں تو معروضیت کو نظر انداز کرنے سے رہا اس لئے کسی کے لئے قابل قبول نہ ہوں گا، ہم لکھنے پڑھنے والے لوگ ہیں اس لئے اکثر ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ بھی کرتے رہتے تھے، اکثر اوقات سابقہ دورسے متعلق بات ہو جاتی تھی، پیر علی مردان شاہ پیر آف پگارو لاہور میں جس چار کے ٹولے سے ملتے اور بات کرتے ان میں میرے اور انور قدوائی کے علاوہ پرویز بشیر اور اشرف ممتاز شامل تھے کہ پیر صاحب خود ڈان کے قاری تھے۔ اشرف ممتاز یہاں بھی محتاط رہتے حالانکہ پیرپگارو بہت اچھے میزبان تھے۔
اشرف ممتاز کے حوالے سے میں بلاجھجک کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایسے صحافیوں میں تھے جن کی نثار عثمانی (مرحوم) جیسے اساتذہ کے ساتھ مطابقت بیان کی جا سکتی ہے، وہ مکمل طورپر پرہیز گار اور پکے نمازی تھے، ان کو کوئی خوف اور لالچ نہ ورغلا سکا اور نہ ہی کسی لفافے کا کوئی ذکر ان کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے وہ صاف ستھری زندگی اور پیشہ صحافت گزار کر گئے ہیں، اگر میں ان کے بڑے صاحبزادے کی وفات کا ذکر نہ کروں تو بات مکمل نہ ہوگی۔ وہ بچہ ہونہاراور کالج کا طالب علم تھا کہ ایک خاتون نے اس کی موٹرسائیکل کو ٹکڑ مار دی، نوجوان شدید زخمی ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہمیں علم ہوا تو ہم دوست بھاگم بھاگ سروسز ہسپتال پہنچے تو مریض کو ایمبولینس میں دیکھا۔ اشرف سر جھکائے بیٹھے تھے۔ ایمبولینس جنرل ہسپتال پہنچ گئی لیکن بچہ جانبر نہ ہوا ، صدمہ بہت بڑا تھا، خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا اور چالان ماڈل ٹاﺅن کچہری میں ایک عدالت میں پیش ہوا میں اشرف کے ساتھ جاتا رہا اور پھر زمانے کی چالوں نے مجبور کیا تو محمد اشرف ممتاز نے بڑے ہی دکھی دل کے ساتھ یہ کہہ کر مقدمہ چھوڑ دیا کہ اللہ کے حضور ہی انصاف ملے گا۔
ہم خیال دوستوں کا بہت طویل وقت اکٹھے گزرا باتیں اور یادیں بہت ہیں، کالم اجازت نہیں دیتا،ابھی میں انور قدوائی، رفیق ڈوگر، خواجہ فرخ سعید اور خالد چودھری جیسے دوستوں کی جدائی نہ بھلا سکا کہ یہ صدمہ اور مل گیا۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ درجات بلند کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

مزید :

رائے -کالم -