"شادی میں کسی پارٹنر کا دوسرے کو  جنسی تعلق کی اجازت نہ دینا ذہنی ظلم ہے" عدالت کا اہم فیصلہ

"شادی میں کسی پارٹنر کا دوسرے کو  جنسی تعلق کی اجازت نہ دینا ذہنی ظلم ہے" ...

  

نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن)  الہ آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں ایک جوڑے کی شادی کو تحلیل کرتے ہوئے قرار دیا کہ اگر کوئی شریک حیات اپنے ساتھی کو بغیر کسی وجہ کے طویل عرصے تک اپنے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے تو یہ ذہنی ظلم کے مترادف ہے۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ اپیل کنندہ رویندر پرتاپ یادو نے الزام لگایا ہے کہ اس کی بیوی آشا دیوی نے 'ازدواجی بندھن کا کوئی احترام نہیں کیا، ازدواجی ذمہ داری کو ادا کرنے سے انکار کیا' جس کی وجہ سے ان کی شادی خراب ہوئی۔  رویندر  یادو نے وارانسی کی فیملی کورٹ کے 2005 کے اس حکم کو چیلنج کیا تھا جس نے سیکشن 13 ہندو میرج ایکٹ 1955 کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی طلاق کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ نچلی عدالت نے 'ہائپر ٹیکنیکل اپروچ' اپناتے ہوئے مسٹر یادو کے کیس کو خارج کیا۔

رویندر پرتاپ یادو نے طلاق کی درخواست   اس بنیاد پر دائر کی تھی  کہ کمیونٹی پنچایت میں باہمی رضامندی سے طلاق ہو چکی ہے۔ اس نے ذہنی ظلم کا بھی الزام لگایا اور کہا کہ اس کی بیوی ازدواجی حقوق پورے نہیں کر رہی  اور وہ کافی عرصے سے الگ رہتے ہیں۔ مسٹر یادو کے مطابق جوڑے نے مئی 1979 میں شادی کی تھی اور کچھ عرصے بعد اس کی بیوی کا رویہ بدل گیا اور اس نے اس کے ساتھ رہنے سے انکار کردیا۔ بعد میں وہ اپنے والدین کے گھر رہنے لگی۔ شادی کے چھ ماہ بعد اس نے اپنی بیوی کو واپس آنے پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔

جولائی 1994 میں گاؤں میں ایک پنچایت ہوئی اور فریقین نے ایک معاہدہ کیا اور باہمی رضامندی سے طلاق لے لی۔ درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی اہلیہ کو 22000 روپے بھی ادا کیے  تاہم جب شوہر نے ذہنی ظلم، انحطاط اور طلاق کے معاہدے کی بنیاد پر طلاق کا حکم نامہ طلب کیا تو وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئی۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -