انقلاب

تحریر: محمد کامران
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اس بات پر شاید یقین کیے بیٹھے ہیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ شاید کبھی پاکستان میں ہوا ہی نہیں کسی پارٹی کو ایسے نہیں توڑا گیا جیسے ان کو توڑا جا رہا ہے۔ اور شاید عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی آج تک کسی پارٹی لیڈر کے ساتھ نہیں ہوا تو اس بات کو صرف سیاسی تاریخ سے ناآشنائی ہی کہا جا سکتا ہے۔ جن کا سیاسی تاریخ کا شعور 2018 کے بعد شروع ہوا ہے ان کو چاہئے کہ عبدالغفار خان جن کو باچا خان بھی کہتے ہیں ہیں ان کی زندگی میں اپنے مشن کے لئے آنے والی تلخیوں کے بارے میں ضرور پڑھیں انہوں نے تقریباً اپنی زندگی کی 3 دہائیاں جیل میں گزاریں ، ان کو سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا تھا اصولوں پر کھڑے ہونا اگر سیکھنا ہے تو باچا خان سے سیکھیں انہی کے صاحبزادے ولی خان جنہوں نے تقریباً 15سال جیل میں گزارے عدم تشدد کی تحریک چلائی 1960 سے لے کر 1980 تک انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریک چلائی اور اپنے اور اپنے خاندان پر ٹوٹنے والی مصیبتوں کے باوجود عوام کو آگ میں نہیں جھونکا۔ قربانیوں کی داستان اگر آپ نے پڑھنی ہے تو بلور خاندان کو پڑھ لیں جن کے پورے خاندان کے صرف اور صرف طالبان مخالف ہونے پر لاشوں کے انبار لگا دیئے گئے۔ بھٹو صاحب کو لٹکا دیا گیا گیا اور یہاں تک کہ ان کا جنازہ پڑھنے کے لئے بھی صرف جیل میں 4لوگ تھے۔ نصرت بھٹو کے ساتھ جو کچھ ہوا ہوا وہ بھی شاید آپ نے کبھی پڑھا نہیں ہوگا۔ بےنظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا جس کا ان کو پتہ بھی تھا لیکن پاکستان کو جلانے کی بات انہوں نے بھی کبھی نہیں کی۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کی تاریخ میں اتنی مثالیں موجود ہیں کہ شاید ایک کالم بہت کم پڑ جائے گا۔ عوامی لیڈر عوام کے لیے ریڈ لائن بنتے ہیں اور ان کے لیے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن یہاں پر انقلاب کی باتیں کرنے والے عوام کو جیلوں میں جھونک رہے ہیں اور خود بالٹیاں پہن کر عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جعلی نظریات پر کھڑے لوگوں کا کہاں دل کرتا ہے کہ وہ جیل کاٹیں۔ جو لیڈر اپنی تحریک کے نتائج کا سامنا کرنے کو تیار نہ ہو اور جیل جانے کے بجائے ملک کو جلانے کو ترجیح دے۔ دو دن جیل میں گزارنے کو ظلم کے پہاڑ توڑے محسوس کرے۔دوسری جانب غریب کے بچے کو انقلاب کا چورن بیچ کر دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسا دے۔ جن کی مائیں رو رو کے اپنے آنسو سوکھا لیں اور وہ غریب اب ساری زندگی اے ٹی سی کے چکر لگائیں گے صرف اس کے لیے کہ کسی کی وزیراعظم بننے کی ضد تھی۔ اشرافیہ کبھی انقلاب نہیں لا سکتی جس کے پاس ہر چیز کی فراوانی ہو اس کا جیلوں میں سڑنے کو دل نہیں کرتا۔ ایک اعلیٰ عہدیدار کے صرف اس لئے خلاف ہونا کہ وہ مجھےواپس گود میں نہیں بٹھاتا ،اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی ایک شخص کے لیے سارے ملک کو آگ لگانے کا نام انقلاب ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔