لوگوں میں پڑھنے کی لگن بہت تھی، تقریباً ہر پڑھا لکھاشخص یا طالب علم رات کو سونے سے پہلے مطالعہ ضرور کرتا،ہرمحلے میں آنہ لائبریری ہوتی تھی

لوگوں میں پڑھنے کی لگن بہت تھی، تقریباً ہر پڑھا لکھاشخص یا طالب علم رات کو ...
لوگوں میں پڑھنے کی لگن بہت تھی، تقریباً ہر پڑھا لکھاشخص یا طالب علم رات کو سونے سے پہلے مطالعہ ضرور کرتا،ہرمحلے میں آنہ لائبریری ہوتی تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:120
لوگوں کے مالی حالات ابھی پوری طرح سنبھلے نہیں تھے۔ ریڈیو اور سنیما کے علاوہ تفریح طبع کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ مالی دشواریوں کے سبب سنیما جانا ہر کسی کے بس میں نہ تھا جبکہ ریڈیو بھی اپنے مقررہ اوقات میں ہی اس طرح کے پروگرام نشر کرتا تھا۔ لے دے کر اخباریں اور کتابیں ہی رہ جاتی تھیں جو بآسانی پہنچ میں تھیں۔عام سی سو ڈیڑھ سو صفحوں کی کتاب ایک روپے میں اور اچھی خاصی ضخیم کتابیں بھی تین چارروپے تک مل جاتی تھیں۔ 
ابتدائی دورکے مشہور لکھاریوں میں ابن صفی جیسے عظیم قلم کار بھی تھے جونہ صرف مہینے میں دو تین کتابیں چھاپ کر مارکیٹ میں بھیجتے بلکہ ساتھ ساتھ اپنے دفتری کام بھی انجام دیتے تھے۔ پاکستان میں جاسوسی کہانیوں کے ادب کی شروعات انہوں نے ہی کی تھی۔ ان کی کتاب کی قیمت بارہ آنے ہوتی تھی،جب کہ اچھے سے اچھا مجلہ آٹھ آنے میں اور ناول دو تین روپے میں مل جاتا تھا۔لوگوں میں پڑھنے کا شوق اور لگن بھی بہت تھی۔ تقریباً ہر ہی پڑھا لکھاشخص یا طالب علم رات کو سونے سے پہلے مطالعہ ضرور کرتا تھا۔ جو لوگ نئی کتابوں کی خریداری نہیں کرسکتے تھے وہ پرانی کتابیں خرید لاتے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکتا تو تقریباً ہرمحلے میں آنہ لائبریری ہوتی تھی جہاں سے ایک آنے روز پر بآسانی اپنی مرضی کی کتاب حاصل کی جاسکتی تھی۔ اگر مطالعہ کے شوقین حضرات کتاب وقت پر واپس نہیں کرتے تھے تو لائبریری والا نہ صرف ان پر جرمانہ عائد کرتا تھا بلکہ آئندہ کتاب جلدی واپس نہ کرنے کی صورت میں دھمکیاں بھی دیا کرتا۔
کالج اور یونیورسٹی میں اردو کے اساتذہ عموماً خود بھی لکھاری یا شاعر ہوتے تھے۔ہمارے اردو کے پروفیسر وسیم فاضلی بہت خوب صورت شاعری کیا کرتے تھے۔ پڑھاتے پڑھاتے وہ یکدم رک جاتے، ان کے چہرے پر کچھ بے چینی کے آثار آتے اور کرسی پر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے۔پھر سامنے بیٹھے ہوئے کسی طالب علم کو اشارہ کرتے جو بڑی سرعت سے کاغذ پنسل لے کر ان کے پاس جا کھڑا ہوتا۔وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتے اور پھر ان پر آمد شروع ہو جاتی تھی۔ خوب صورت شعروں سے مرقع غزل یا نظم بس پندرہ بیس منٹ ہی میں مکمل ہو جاتی تھی۔اس کے بعد وہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو جاتے اور ہم سب کلاس فیلو خالی پیریڈ میں بیٹھ کر ان کی تازہ شاعری کو پڑھتے اور اپنی اپنی کاپیوں میں محفوظ بھی کرلیا کرتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ان کو اپنے اس کلام کے بارے میں کچھ یاد بھی نہیں رہتا تھا۔کچھ طالب علم تو بعد از اں ان کے کلام کو اپنے نام سے منسوب کرکے کسی نہ کسی مجلے میں چھپوابھی لیتے تھے، جس کا انہوں نے جانتے بوجھتے بھی کبھی برا نہ منایا تھا۔بس ایسے ہی بے پرواہ تھے وہ۔ بال بکھرے ہوئے، ا ورشیروانی کے بٹن اکثر کھلے ہوتے تھے۔ وہ کبھی بھی شعر کا ترجمہ اور تشریح نہ کرتے تھے بلکہ اپنی بہترین یاد داشت کی بدولت اسی مفہوم کے کئی اشعار سنا دیتے تو بات بالکل صاف ہو جاتی تھی۔
آپ نے سنا ہو گا کہ شاعر جب تک بہ نفس نفیس اپنا کلام سامعین کو نہ سنا لیں انہیں ایک پل چین نہیں پڑتا۔اکثر شاعر حضرات اپنے دیوان یا شاعری کے مسودے اپنی بغل میں دبائے پھرتے تھے۔ جہاں ماحول ساز گار دیکھتے،اسے کھول کر بیٹھ جاتے اور سامنے بیٹھے ہوئے ایک دو شناساؤں کو شعر سنا کر دل کا بوجھ اتار پھینکتے۔ پھر وہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کر نے لگتے تھے۔ تاہم شاعری کے بیان کے لیے بہترین اکھاڑا تو محفل مشاعرہ ہی تھا جہاں تما م مدعو ہونے والے شاعر اپنا کلام پیش کرتے اور دوسروں کا سنتے اور داد وصول کرتے اور دیتے تھے۔
مشاعرے کا بھی بڑا اہتمام کیا جاتا۔ ایک سٹیج بنا کر اس پر دودھ سے دھلی چاندنی بچھا کر کئی گاؤ تکیے اوراگال دان رکھ دیئے جاتے تھے۔ پان اور چائے کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا تھا۔ کسی ایک نامور شاعر کو صدر مشاعرہ بنا دیا جاتا، جو بڑی تمکنت اور غرور سے اس عہدے پر براجمان ہو جاتے۔ مجلسی آداب کے پیش نظر وہ سب سے آخر میں اپنا کلام پڑھنے کے لیے بلائے جاتے تھے۔ایک سٹیج سکریٹری ہوتا تھا جس کو وہاں حاضر سارے شعراء کے چیدہ چیدہ شعر یاد ہوتے تھے۔ وہ ایک خاص انداز میں شاعر کے قصیدے بیان کرتا اور پھر اس کا کوئی ایک آدھ قابل ذکر شعر پڑھ کے اس کو آنے کی دعوت دیتا تھا۔اگر کچھ اور پرانے دور میں چلے جائیں تو ایک شمع جلائی جاتی تھی اور جس شاعر کی پڑھنے کی باری ہوتی تھی، شمع ان کے سامنے رکھ دی جاتی تھی۔ ورنہ سٹیج سکریٹری مائک کے سامنے اپنی نشست اس کو پیش کر دیتا تھا۔ اس دوران باقی سارے شعراء اس طرح گاؤ تکیے لگا کر بیٹھے رہتے یا چاندنی پر لوٹنیاں لگاتے جیسے وہ مشاعرے میں نہیں بلکہ کسی عزیز کی شادی میں آئے ہوئے ہیں یا معدے کی گیس کا ازالہ کر رہے ہیں۔ کسی شاعر سے کوئی اچھا شعر سر زد ہو جاتا تو ہر سو ایک قیامت برپا ہو جاتی تھی۔ وہ بے چین ہو کر گاؤ تکیے سے اٹھ کر بیٹھ جاتے، شاعر کی طرف اشارہ کر کے اس کے کلام کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے، اگال دان میں پیک تھوکتے اور شاعر کو اپنا شعر مکرر ارشاد کرنے کی دہائی دیتے۔ کبھی حکم دیتے یاپھرمنت سماجت کرتے تھے۔ نیچے بیٹھنے والے سامعین نے اپناعلیٰحدہ ہی غل غپاڑا مچایا ہوا ہوتا تھا۔ عجیب گھمسان کا رن پڑتا تھا۔چونکہ سب شعراء ایک دوسرے کو ذاتی طور پر بھی جانتے تھے اس لیے بعض اوقات وہ اپنے کسی ساتھی کا نام لے کر اسے متوجہ کرتے اور پڑھا جانے والا شعر اس کی نذر کردیتے تھے۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -