تیونس میں اسلامی ریستوران کا افتتاح کر دیا گیا
تیونس(آن لائن)تیونس میں اسلامی ریستوران کا افتتاح ، با پر دہ خوا تین اور با ریش افراد کو خصو صی رعا ئیت دی جا ئے گی جبکہ تیونس میں کھلنے والے پہلے 'اسلامی ریستوران' کے خلاف سوشل میڈیا میں تنفید کی ایک منظم مہم شروع کر دی گئی ہے۔ حکمران جماعت 'النہضہ' کے ہم خیال سیٹلائٹ ٹی وی چینل 'الزیتونہ' نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں چند روز پہلے کھلنے والے 'حلال' ریستوران میں اسلامی ماحول میں لذت کام و دہن کا اہتمام کیا گیا ہے۔'حلال' ریستوران کے بارے میں 'الزیتونہ' ٹی وی کی رپورٹ کے بعد سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز میں سرگرم ملک کا سیکولر طبقہ معاشرے کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی حکومتی کاوش کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آ گیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور سماجی رضاکاروں نے تیونس میں 'اسلامی ریستوران' کے آئیڈیا کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ "ہمارے ملک میں ایسے کسی امتیازی انتظام کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس کا افتتاح کر کے تیونس کے اسلامی حکمرانوں نے معاشرے کے خد وخال تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے استعمار سے آزادی بہت محنت کے بعد حاصل کی، مگر اب اس آزادی کو مذہب کے قالب میں زبردستی ڈھالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔یاد رہے کہ 'حلال' ریستوران کا افتتاح تیونس کے اہم سیاحتی شہر سوسہ میں کیا گیا۔ سوسہ شہر کو ملکی سیاحت میں اہم مقام حاصل ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حلال ریستوران میں مرد و خواتین کے لئے کھانے کے الگ الگ ہال موجود ہوں گے تاکہ اختلاط سے بچا جا سکے۔ تیونس کی ایلیٹ کلاس مرد و زن کے اختلاط کی بیخ کنی کے لئے حلال ریستوران کے اقدام پر سیخ پا ہے۔رپورٹ کے مطابق اسلامی ریستوران میں محب خواتین اور داڑھی والے مرد گاہوں کو کھانے کے بل میں خصوصی رعایت کی پیشکش کی گئی ہے۔ خواتین صارف سے کھانے کا آرڈر بھی محجب خواتین میزبان ہی وصول کریں گی اور وہی انہیں کھانا سرو کریں گے۔ نیز ہوٹل کے مردانہ سیکشن میں خدمت پر مامور عملہ بھی باریش نوجوانوں پر مشتمل ہے۔الزیتونہ کے مطابو حلال ریستوران کا افتتاح ملک میں اسلاملائزیشن کے عمل کی جانب ایک قدم ہے۔ اس سے قبل تیونس میں النہضہ کی حکومت مساجد کو کنڑول کرنے کا اسلامی نظام وقف بحال کر چکی ہے۔ یہ نظام 1956 ءسے معطل تھا۔ نیز ملک میں اسلامی بینکاری کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ حلال ریستوران کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت مرد و زن کے امتیاز کو گہرا کر کے تیونس میں جدید خاندانی اکائی کے تصور کو پروان چڑھنے سے روک رہی ہے۔