کہاں گئے وہ لوگ!
مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ عصر کی نماز کے بعد اپنی رہائش کے لان میں حاضرین سے ہلکی پھلکی گفتگو کیا کرتے تھے۔ ایک دن مَیں وہاں موجود تھا جب ایک صاحب نے اُن سے سوال کیا:مولانا !کیا شیعہ مسلک کے امام کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے؟ سوال ایسا تھا کہ حاضرین چونک گئے۔ مولانا مردِ دانا تھے، بڑی جلدی بات کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے، چنانچہ پلٹ کر سوال کرنے والے سے پوچھ لیا، پہلے آپ مجھے یہ بتائیں آپ اہل تشیع کو مسلمان سمجھتے ہیں؟ وہ صاحب آہستگی سے بولے: ” جی، مَیں انہیں مسلمان تو سمجھتا ہی ہوں“! پھر مولانا نے فرمایا: تو پھر آپ مجھے کیا پوچھتے ہیں؟ سامعین مولانا کی حاضر جوابی پر حیران رہ گئے۔
یہ ایک زمانہ تھا جب ابھی ہمارا ماحول فرقہ واریت کی آگ سے بڑی حد تک محفوظ و مامون تھا۔ یہ نہیں کہ علماءبا ہم اختلاف نہیں کرتے تھے، کرتے تھے اور بعض اوقات مناظرے تک بھی نوبت پہنچتی تھی، لیکن دِلوں میں کدورتوں اور نفرتوں کا زہر نہ تھا۔ ایک دوسرے کے سٹیج پر بھی آتے اور اپنے سے مختلف مسلک رکھنے والوں سے مخاطب بھی ہوتے تھے، لیکن کیا مجال کہ لہجہ بگڑتا یا طنز و تعریض کے تیر برستے۔ مولانا مودودی ؒ ہی کی ایک اور مثال عرض کروں۔ صدر ایوب کے دور میں انہوں نے ایک شیعہ مجلس سے خطاب کیا اور وہ تقریر”شہادت حسین ؓ “کے عنوان سے آج بھی کتابچے کی صورت میں دستیاب ہے۔ تاریخی حقائق بھی پیش کئے ہیں اور ان کا تجزیہ بھی ، لیکن کبھی کسی حلقے کی طرف سے حرف اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ فلاں فقرہ توازن سے خالی ہے یا کسی کی دل آزاری کرنے والا ہے۔ پڑھتے جایئے یوں لگتا ہے جیسے صاف شفاف پانی کی جوئے رواں ہے۔ اپنے موضوع پر جامع و مانع تقریر ہے۔
جس دور کی بات مَیں کر رہا ہوں اُس وقت پنجاب میں شیعہ رہنما خطیب آل محمد مولانا اظہر حسن زیدی بھی تھے اور علامہ کفایت حسین بھی۔ اہل حدیث علماءمیں مولانا داﺅد غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل (آف گوجرانوالہ) کے اسمائے گرام ممتاز تھے۔ مولانا محمد حسین نعیمی، مولانا سردار احمد، سید محمود شاہ گجراتی، مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی اور صاحبزادہ فیض الحسن بریلوی مسلک کا پرچم بلند کئے ہوئے تھے۔ مولانا غلام اللہ خان، سید عنایت اللہ شاہ بخاری، سید نور الحسن بخاری، مولانا محمد سرفراز گکھڑوی اور مولانا ضیاءالقاسمی ایسے اعلیٰ درجے کے خطیب اور واعظ دیو بندی مسلک کے پیروکار تھے۔ مولانا زاہد الراشدی نے مجھے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ اُس زمانے میں شیعہ حضرات جب محرم کی پہلی تاریخ کو چوک گھنٹہ گھر گوجرانوالہ میں جلسہ منعقد کرتے، تو اس میں مقامی دیو بندی خطیب مولانا عبدالرحمن جامی کو دعوت ِ خطاب دی جاتی تھی اور یہ گوجرانوالہ کی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔
صلح اور رواداری کے حوالے سے ایک اور مثال بھی عرض کر دوں۔ اس کے راوی ممتاز اہل حدیث اسکالر مولانا محمد اسحاق بھٹی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب کوئی شخص حضرت مولانا مفتی محمد حسن یا مولانا احمد علی لاہوری کے پاس ایک نشست میں دی ہوئی طلاق ثلاثہ کا مسئلہ پوچھنے جاتا تو وہ فرماتے، بھائی ہم تو ننگی تلوار ہیں، بہتر ہے تم مولانا داﺅد غزنوی کے پاس چلے جاﺅ، ممکن ہے کوئی گنجائش نکل آئے۔ ”ننگی تلوار“ سے مراد حنفی مسلک تھا، جس میں ایسی طلاق کو طلاقِ مغلظہ سمجھا جاتا ہے، یعنی رجوع کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ دراصل دونوں دیو بندی بزرگ ایک تو خیر خواہی کے جذبے سے جواب دیتے، دوسرے اُن کے جواب سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے معاصر دوسرے مسلک کا بھی کتنا احترام کرتے تھے۔ رئیس الااحرار حضرت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ گھنٹوں تقریر فرماتے، لیکن ایک جملہ بھی کبھی زہر آلود نہیں کہا، بلکہ اُن کے صلح کُل کے مسلک والے کئی جملے ضرب المثل بن چکے ہیں۔
زیادہ دیر نہیں گزری، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں امامیہ سٹوڈنٹس آر گنائزیشن(ISO) کے تحت محرم میں مجلس منعقد ہوتی تو یونیورسٹی انتظامیہ بسیں تک فراہم کر دیتی تھی، حالانکہ اس وقت یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کی باگ ڈور اسلامی جمعیت طلباءکے پاس ہوتی تھی، لیکن نہ کبھی مجلس میں اُن کی طرف سے رکاوٹ پڑی، نہ انتظامیہ نے کبھی کوئی رخنہ ڈالا۔ انہی مجلسوں میں سے دو میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا۔ خطیب آل محمد مولانا اظہر حسن زیدی اور مولانا ممحمد بشیر آف ٹیکسلا کے خطبات کا لطف آج تک میرے دل و دماغ کو مسحور کئے ہوئے ہے۔ بشیر صاحب کا بار بار کہنا، دیکھو بشیرکیا کہہ گیا، بشیر کہتا ہے.... ان کی تقریر کو دلآویز بنادیتا تھا۔
آج جب گردو پیش پر نظر دوڑاتا ہوں تو دُور دُور تک کوئی ایسا خطیب اور مقرر دکھائی نہیں دیتا، جس میں ان مرحوم علماءایسا تدبّر اور بات کرنے کا سلیقہ ہو، جو بات کہہ بھی جائے، لیکن نہ کسی کا دل دُکھے اور نہ کوئی اشتعال میں آئے۔ آغا شورش کاشمیری کی بھی اتحاد ملت اسلامیہ کے لئے کوششیں کم نہ تھیں۔شیعہ رہنما مظفر علی شمسی سے اُن کی دوستی تھی، ختم نبوت کی تحریک کے دوران بارہا دونوں حضرات ایک ہی سٹیج سے لب کشا ہوتے تھے۔ علامہ رشید ترابی انتقال کر گئے، تو ان کے چہلم کے موقع پر مَیں نے آغا صاحب کو کربلا گامے شاہ میں سُنا۔ صدارت علامہ صاحب کے صاحبزادے عقیل ترابی کر رہے تھے۔ مولانا اظہر حسن زیدی بھی موجود تھے۔ آغا صاحب اُن کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہے تھے، مولانا کی قدر کرو، آج ہیں ممکن ہے کل نہ ہوں۔ ان کا دم غنیمت سمجھو:
ہے غنیمت کہ فروزاں ہیں ابھی چند چراغ
بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو
پاکستان کی دستوری تاریخ کا یہ ناقابل فراموش واقعہ ہے کہ1950ءمیں تمام مسالک کے علماءنے مل کر 22نکات طے کئے اور حکمرانوں کو کہہ دیا کہ ان نکات کو پیش نظر رکھیں اور جیسا چاہیں دستور بنا لیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
بس پھر معلوم نہیں کہ اس امن و آشتی کی فضا کو کس کی نظر کھا گئی، گولیاں چلنے اور لاشیں گرنے لگیں۔ فتوے گونجنے لگے اور صرف مسلک کے اختلاف پر ایک دوسرے کی جان لینا معمولی واقعہ سمجھ لیا گیا، ایسے میں ان بزرگوں کی یاد بُری طرح تڑپاتی ہے کہ آخر وہ لوگ بھی تو اسلام کے نام لیوا تھے۔ اللہ اور رسول کے والہ و شیدا تھے، ان جیسا تدبّر، ان جیسی حکمت اور ان جیسی کشادہ ظرفی اب کیوں نظر نہیں آتی؟ اپنے آپ ہی سے یہ سوال کرتا ہوں اور پھر جب سوچ کا کوئی سرا نہیں ملتا، تو مرتضیٰ برلاس کے دو شعر گنگنا کر چُپ ہو رہتا ہوں:
ماضی کو بُرا کہتے ہیں، ہم لوگ عجب ہیں
ماضی میں یہ حالات کہاں تھے کہ جو اب ہیں
اب نوح کہاں جو ہمیں کشتی پہ بٹھا لے
ورنہ کسی طوفان کے آثار تو سب ہیں