کراچی میںسب سے بڑے ایٹمی پاور پلانٹ کی تعمیر

کراچی میںسب سے بڑے ایٹمی پاور پلانٹ کی تعمیر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے بجلی کا بحران حل کرنے کے لئے ایٹمی توانائی پر انحصار کریں گے اور مزید چھ ایٹمی بجلی گھر قائم کئے جائیں گے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن مقامات کی نشاندہی کرے، حکومت ہر قسم کی معاونت کرے گی۔ انہوں نے کراچی کے ساحل پر ملک کے دوسرے اور سب سے بڑے ایٹمی بجلی گھر کا سنگ ِ بنیاد رکھ دیا، جس سے2200میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی، کوسٹل پاور منصوبہ ملک سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ہے۔ چین کے تعاون سے تعمیر کئے جانے والے اس منصوبے سے توانائی کے بحران کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا چین کے تعاون سے چشمہ بجلی گھر کا منصوبہ میری پہلی حکومت میں شروع کیا گیا تھا یہ پاور پلانٹ ہی ملک کے دوسرے ایٹمی پاور پلانٹس کی بنیاد بنا۔ بونجی ڈیم کی تعمیر کا کام بھی جلد شروع کیا جائے گا، دیامر بھاشا اور داسو ڈیم ایک ساتھ تعمیر کئے جائیں گے، گڈانی میں640میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ لگائیں گے جہاں کوئلے سے بجلی پیدا کی جائے گی، ایٹمی توانائی کے حصول میں ون اور کینپ ٹو اہم کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ کوسٹل پاور منصوبہ اپنے مقررہ وقت72ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔
پاکستان طویل عرصے سے توانائی کی قِلت کا شکار ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف شہروں، قصبات اور دیہات میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، بلکہ صنعتی سیکٹر بھی بحران کا شکار ہے، صنعتی شہروں میں جن میں فیصل آباد سرفہرست ہے، درمیانے اور چھوٹے درجے کی بہت سی صنعتیں بند ہو گئی ہیں، جس کی وجہ بیروز گاری کا عفریت پھیل گیا ہے۔ بجلی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں اور روز بروز مہنگی بھی ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت نے بجلی کی سبسڈی ختم کی تو گھریلو صارفین کے بلوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو گیا، صنعتی اور کمرشل بجلی پہلے ہی مہنگی ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے اشیائے صرف کی گرانی کا ایک چکر مسلسل چل رہا ہے، زندگی کی ہر بنیادی ضرورت ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگی ہو رہی ہے۔ حکومت اپنے اخراجات کے لئے نوٹ چھاپ رہی ہے یا پھر بینکوں سے بہت زیادہ قرضے لئے جا رہے ہیں، غیر ملکی قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے حکومت مزیدقرضے لے رہی ہے یا بازار سے ڈالر خریدتی ہے، تو ڈالر کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے،اس وقت ڈالر روپے کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر موجود ہے۔
ہم نے اپنی توانائی کی ضروریات کا صحیح معنوں میں ادراک نہیں کیا اور بجلی کی پیداوار کے جو سستے وسائل ہمیں وافر دستیاب تھے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد ہم کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکے، اس کے برعکس ہم نے پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز سے مہنگے داموں بجلی خریدنے کا راستہ اختیار کیا۔ یہ بجلی درآمدی فرنس آئل سے تیار ہوتی ہے اور سابق حکومتوں نے یہ بجلی مہنگے داموں خریدنے کے جو معاہدے آئی پی پیز سے کئے ان کی وجہ سے گردشی قرضوں کا ایک شیطانی چکر چل نکلا، پاور کمپنیوں کو جب بروقت ادائیگی نہیں ہوتی تو وہ پیداوار کم کر دیتی ہیں، یوں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں اعلان کیا تھا کہ دو ماہ کے اندر اندر500ارب روپے کے گردشی قرضے ادا کر دیئے جائیں گے ، حکومت نے اپنا وعدہ پورا کیا، 480ارب روپے کے گردشی قرضے ادا کئے اور یوں بجلی کی لوڈشیڈنگ کچھ کم ہوئی۔لیکن مزید قرضے بھی چڑھ رہے ہیں، آج کل خوشگوار موسم کی وجہ سے بجلی کی ڈیمانڈ میں کمی ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کہیں کہیں بالکل ختم اور باقی جگہوں پر کم ہو چکی ہے۔ اس وقت بجلی کا خسارہ ایک ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت نے بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے مسلسل کوششیں شروع کر رکھی ہیں، پنجاب کی حکومت بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ نندی پور پاور پراجیکٹ پر کام شروع ہے، جس کے پہلے مرحلے میں پیداوار اگلے سال مئی میں متوقع ہے۔ چولستان میں قائداعظم انرجی پارک قائم کیا جا رہا ہے، جہاں شمسی توانائی سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف اس محاذ پر خاصے سرگرم ہیں، پنجاب میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ بھی لگیں گے، فوجی فاﺅنڈیشن نے ہوا کے ذریعے50میگاواٹ بجلی پیدا کرنا شروع کر دی ہے۔ ونڈ انرجی کی پیداوار چند برس میں بڑھ جائے گی۔
مقامِ مسرت ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے کراچی کے ساحل پر ایٹمی پاور پلانٹ کا سنگِ بنیاد رکھا ہے اور ایسے چھ مزید پاور پلانٹ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ ایٹمی ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی تھرمل ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی سے سستی ہے، لیکن ہم اپنی مجموعی ضرورت کا بہت کم حصہ ایٹمی ذرائع سے حاصل کر پاتے ہیں۔ وزیراعظم نے جس منصوبے کا سنگ ِ بنیاد رکھا ہے یہ چھ سال میں مکمل ہو گا، جن دوسرے منصوبوں پر کام شروع ہے وہ بھی اگلے دو تین سال میں تکمیل کے مراحل مکمل کریں گے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ پر بھی کام جاری ہے، اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ اگلے تین سال بعد پاکستان انرجی کے بحران سے بڑی حد تک نکل آئے گا، لیکن یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ ان برسوں میں بجلی کی ضرورت اور طلب میں تدریجاً اضافہ ہو گا، پھر ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان نے بیروز گاری اور مہنگائی کو کم کرنا ہے، تو جی ڈی پی کی شرح نمو کو بڑھا کر سات آٹھ فیصد تک لے جانا ہو گا۔ اس وقت یہ شرح تین فیصد ہے اب ظاہر ہے، اس میں اضافے کے لئے ہر قسم کی صنعتوں کا قیام ضروری ہے اور صنعتیں چلانے کے لئے توانائی کی ضرورت ہے۔ ایٹمی بجلی کے ساتھ ساتھ ہماری پہلی ترجیح ہائیڈل بجلی کی تیاری ہونی چاہئے جو اب بھی دوسرے تمام ذرائع سے سستی حاصل ہوتی ہے۔ عوام کو سستی بجلی فراہم کرنا حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے اور اس کے لئے سبسڈی کا راستہ اختیار کرنا دانشمندی نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بڑے ڈیموں کی تعمیر کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھے، بڑے ڈیموں سے نہ صرف بجلی سستی ملتی ہے، بلکہ پانی بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور اگلے دس پندرہ سال میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم تعمیر کرنا ناگزیر ہو جائے گا ورنہ پانی کی قلت کا سامنا ہو گا۔ پانی ایسی ضرورت ہے، جس کے ذریعے ہم اپنی زرعی ضروریات پوری کر سکتے ہیں، زراعت کاشعبہ بھی ہماری جی ڈی پی میں اضافے میں ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے، لیکن یہ سارے کام جنگی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے میٹرو بس کا منصوبہ ایک سال سے بھی کم مُدت میں مکمل کرا دیا تھا، جس پر لوگ حیرت میں ڈوب گئے، اِسی طرح ضرورت اِس بات کی ہے کہ توانائی کے منصوبوں کو بھی جلد مکمل کیا جائے ، جو ہمارے لئے لائف لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وکلاءکی ہڑتال اور احتجاج!
پاکستان بار کونسل کی کال پر وکلاءنے پورے ملک میں ہڑتال کی۔ ملک کے زیادہ تر حصوں میں بدھ کو کوئی بھی وکیل کسی مقدے میں پیش نہیں ہوا۔ جج صاحبان نے یہ دن اپنے اپنے چیمبر میں گزارا، ماتحت عدلیہ سے عدالت عظمیٰ تک کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی اور زیادہ تر مقدمات میں تاریخیں پڑ گئیں، جو لوگ مختلف مقدمات میں ملوث اور حوالاتی ہیں اور ان کی پیشیاں تھیں، پولیس اُن کو جیل سے لے آئی، لیکن کارروائی نہ ہونے کے باعث وہ کچہریوں کی حوالاتوں میں پڑے پڑے واپس چلے گئے، اِسی طرح اپنے اپنے مقدمات کی شنوائی اور انصاف حاصل کرنے کے لئے دور دراز سے آنے والے سائل بھی مایوسی سے واپس جانے پر مجبور اور مالی بوجھ کا بھی شکار ہوئے۔
وکلاءنے یہ ہڑتال اسلام آباد میں وکلاءپر پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پر کی۔ منگل کو عدالت عظمیٰ کے باہر پولیس اور وکلاءکے درمیان جھڑپ ہوئی، وکلاءجن کا تعلق فیصل آباد، گوجرانوالہ اور ڈیرہ غازیخان وغیرہ سے تھا ، مارچ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے باہر پہنچے اور عمارت میں جانا چاہتے تھے، پولیس نے روکا تو جھگڑا ہو گیا، جو جھڑپوں کی صورت اختیار کر گیا، پولیس نے ڈنڈا اور لاٹھی چارج کرنے کے علاوہ آنسو گیس استعمال کی اور مبینہ طور پر ربڑ کی گولیاں چلائیں، وکلاءنے پولیس پر پتھراﺅ کیا اور یوں دونوں طرف سے متعدد افراد زخمی ہوئے، ان میں وکلاءاور پولیس والے شامل ہیں۔
وکلاءکا یہ مارچ اور مظاہرہ فیصل آباد، سرگودھا، ساہیوال، ڈیرہ غازی خان اور گوجرانوالہ میں ہائی کورٹ کی بنچیں بنانے کے حوالے سے ہے۔ فیصل آباد کے وکلاءکے مطابق ان سے وعدہ کیا گیا، جس کی تکمیل نہ ہوئی، جبکہ گوجرانوالہ اور ڈی جی خان والوں کے مطابق ان کو دور دراز کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ کے علاوہ راولپنڈی، بہاولپور اور ملتان میں علاقائی بنچ قائم ہیں، جہاں جج حضرات اردگرد کے علاقوں سے متعلق مقدمات سنتے ہیں، اب مطالبہ مزید بنچوں کا ہے اور یہ معاملہ خود عدالت عالیہ اور وکلاءکے درمیان ہے جو بنچ اور بار کا معاملہ ہے، جس کے تعاون کی بار بار بات کی جاتی ہے کہ اس سے قانون اور انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔
وکلاءکی ہڑتال کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی محترم وکلاء اپنے چھوٹے بڑے مطالبات کے لئے ہڑتال کرتے چلے آئے، جس سے عام لوگ خوار اور پریشان ہوتے ہیں اور انصاف کا تو ”خون“ ہی ہوتا نظر آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا قانون کے یہ پاسبان اور ڈبل گریجوایٹ حضرات یہ نہیں جانتے کہ مسائل بات چیت سے حل ہوتے ہیں اور مذاکرات بہترین ذریعہ ہیں۔ گفتگو ہو تو دلیل سے ایک دوسرے کو قائل کیا جا سکتا ہے اس کے لئے کسی جلوس یا ہڑتال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ تو بنچ اور بار کا معاملہ ہے، وکلاءکا وفد متعلقہ چیف جسٹس سے مل کر ان کو قائل کر لے تو وہ باقی انتظامی امور کے لئے حکومت سے رجوع کر کے مطلوبہ سہولتیں حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر طاقت کے بل پر مطالبے پورے کرانے کے رجحان کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہر کوئی یہی کرے گا۔ وکلاءکو احساس ہونا چاہئے کہ اُن کی ہڑتال سے اُن کے اپنے سائل کتنے متاثر ہوتے ہیں، اب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا پاکستان بار کونسل احتجاج کے لئے ہڑتال کی کال دے سکتی ہے، تو اسے مداخلت کر کے مذاکرات کا دروازہ کھلوانا چاہئے اور پھر دلیل سے بات ہو۔ فریقین میں اتفاق ہو جائے تو بات نہیں بگڑے گی، بہتر یہی ہے کہ پُرامن راستہ اپنایا جائے۔      ٭

مزید :

اداریہ -