سیاسی ہلچل اور مقتدرطبقہ
اب جبکہ تحریک انصاف کے سیاسی دھرنے کو تین ماہ سے اوپر ہوچکے ہیں حکومت کی حکمت عملی میں کیا جوہری تبدیلی واقع ہوئی ہے اس بات کا جائزہ آج کی نشست کا مطمح نظر ہے۔ اس سال اگست میں آزادی وانقلابی مارچوں کی ابتداءہوتے ہی جوہیجان حکومتی حلقوں میں پایا جاتا تھا وہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتا نظر آرہا ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سیاسی جلوسوں کے سائے اس قدر گہرے تھے کہ حکومت واضح طورپر بوکھلاہٹ کا شکار نظر آرہی تھی۔ ملک کے عسکری حلقوں میں بھی اس ہلچل کو محسوس کیا گیا کیونکہ سیاسی طورپر ملک دودھڑوں میں منقسم نظر آتا تھا۔ سیاست کے افق پر موجود سٹیٹس کو برقرار رکھنے والی قوتیں ان دھرنوں سے خائف نظرآرہی تھیں۔
احتجاجی سیاست کا ڈول ڈالتے وقت دونوں سیاسی جماعتوں نے مناسب ہوم ورک مکمل طورپر نہ کیا تھا اور اپنی تحریک کے نتائج کا اندازہ لگائے بغیر اور زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے حکومتی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آئیں۔ چونکہ مقتدر طبقہ طاقت ور تھا اور ان کے مخالفین کی حکمت عملی تنظیم سے بے نیاز، اس لئے فوری طورپر حکومت کے لئے پیدا شدہ خطرات تحلیل ہوتے گئے۔ لیکن اگر حکومت مخالف اٹھنے والی سیاسی لہر کا تجزیاتی مشاہدہ کیا جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اس سے کئی مثبت نتائج بھی سامنے آئے جن کے بارے میں خود تحریک چلانے والے عناصر بھی ادراک نہ کرسکے تھے۔ عوامی تحریک سے اٹھنے والی لہر نے بیداری کی ایک نئی روح قوم میں پھونکی ہے اور اس سیاسی بیداری کا نتیجہ ہے کہ عوام کو اپنی طاقت کی پہچان ہوئی ہے۔ ماضی میں حکومتی اقدامات کو اپنی قسمت کا لکھا ہوا سمجھ کر عام آدمی برداشت کرتا رہا، لیکن سیاسی بیداری کی وجہ سے کئی عشروں کے بعد عوام الناس کو اپنی آواز میں اثر آتا دکھائی دے رہا ہے۔
سول سوسائٹی نے احتجاج کی اس لہر میں بھرپور حصہ لیا ہے جب تاریخ رقم ہوگی تو مورخ ان عوامل کا تذکرہ کرے گا جس سے عوامی شعور بیدار ہوا۔ یہ ان تحاریک کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام میں اپنی طاقت کا احساس ابھر رہا ہے اور انہوں نے پہلی مرتبہ سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ ادا کرنا شروع کیا ہے۔ جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت معنی خیز ہے اور اس شعور سے آگہی کی نشاندہی کررہی ہے، یہ سمجھ لینا کہ نئی سیاسی قیادت کی کرشمہ سازی اس کی بنیادی وجہ ہے غلط فہمی ہوگی بلکہ اس کی اصل وجہ عوام الناس کا ماضی میں حکومتی امور میں عدم شرکت اور مسلسل محرومی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شعور کی اس آگہی سے حکومت نے بھی سبق حاصل کیا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑے گا کہ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ برسراقتدار طبقہ نے عوام کی اس بدلتی ہوئی سوچ کا ادراک نہیں کیا بلکہ روایتی طورپر اس کو نظر انداز کرنے پر ہی اکتفا کیا۔
حکومت نے اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کرنے اور اپنی طرز حکمرانی کے انداز بدلنے کی بجائے اپنی آنکھیں اور کان بند کرکے اس عوامی سوچ کے ابھار کو وقت کے دھارے کے سپرد کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ قدرت نے حکومت کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کا ایک موقعہ فراہم کیا ہے جسے جان بوجھ کر نظرانداز کیا جارہا ہے بلکہ ضائع کیا جارہا ہے۔ عوامی بیداری کی اس لہر کے ابھار کو اقتدار کے محلوں کے مکین سنجیدگی سے لیتے تو ان کے لئے اس میں عبرت کا ایسا سامان تھا کہ ایک طرف حکومت اپنی ہر دلعزیزی کا بھرم قائم رکھ سکتی تھی اور دوسری طرف ملکی مسائل پر بھرپور توجہ دے کر حکمرانی کے چلن کو بہتر بنایا جاسکتا تھا جس سے عوامی محرومیاں دور ہوتیں اور لوگ اس کے ثمرات سے بہرہ مند ہوتے۔ حکومت کے اس لاتعلق رویہ پر عوام کو بہت زیادہ تحفظات ہیں۔ جس کا نتیجہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے لئے آخر کار بہتر نہیں ہوسکتا۔ اگر اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاتا تو خود ان کے حق میں بہت بہتر ہوتا لیکن وزیراعظم اور ان کی حکومت نے اس موقعہ کو گنوادیا اور اپنے لئے گھاٹے کا سودا کیا۔
برسراقتدار جماعت اس موقعہ کو غنیمت جان کر اپنے منشور پر عمل پیرا ہوتی تو اس کا اثر بہت خوش کن ہوتا۔ سابقہ حکومت کے دور سے معاشرہ سے کرپشن ختم کرنے کے لئے ایک قانونی مسودہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے پاس موجود ہے جو مسلم لیگ ن نے پاس نہ کرنے دیا لیکن دوسال ہونے کو آئے ہیں کہ اس حکومت نے اس قانون کے نفاذ کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا حالانکہ اس کی مخالفت میں اپنا زور صرف کرنے والی جماعت کے لئے لازم تھا کہ اپنے دور حکومت میں اسے نافذ کرکے اپنی نیک نیتی کا ثبوت فراہم کرتی۔ تحریک انصاف نے اپنی جدوجہد کا محور انتخابی دھاندلی کو بناکر انتخابی قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم صاحب کے لئے ایک سنہری موقعہ تھا کہ ایسے قوانین جن کے بارے میں ملک کا ہرطبقہ شاکی تھافوراً تبدیل کرنے میں پہل کرتے، جس سے ان کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا اور آئندہ کے لئے یہ قوانین سیاسی ہلچل کا سبب نہ بنتے لیکن افسوس حکومت نے اس موقعہ کو بھی ہاتھ سے جانے دیا اور اپنی عدم توجہی کا ثبوت دے کر بہت بڑی سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا جس کا نتیجہ حکومت کو بھگتنا پڑے گا۔ اگرچہ اس وقت صاحب اقتدار طبقہ اپنے آپ کو بہت محفوظ خیال کررہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے جبکہ عوامی مطالبہ کی پذیرائی کرکے یہ اعتماد بحال کیا جاسکتا تھا۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے مسلسل مثبت انداز حکمرانی کے فقدان کی نشاندہی ایک ایسا سنہری موقعہ تھا کہ اس پہلو پر وزیراعظم صاحب مثبت پیش رفت دکھا سکتے تھے۔ اگر دانش مندی اور سیاسی ہنر مندی کا مظاہرہ کیا جاتا تو اسے اپنے طرز حکمرانی میں بہتری لاکر حکومت اپنی مدت اقتدار کو منطقی انجام تک لے جاسکتی تھی جو کہ فی الوقت ممکن دکھائی نہیں دیتی کیونکہ مثبت پیش رفت نہ کرکے حکومت نے اپنے سیاسی مستقبل کو گہنادیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کے اس تساہل نے ملک کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی نقصان سے دو چار کردیا ہے۔
اب جبکہ تیس نومبر کی تاریخ تیزی سے قریب آرہی ہے ایک مرتبہ پھر حکومت نے اس مسئلہ پر عدم توجہی کا مظاہرہ کرکے ملک کو بے یقینی کی دلدل کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ احتجاج کرنے والوں سے بامقصد مذاکرات کا آغاز کیا جاتا اور صورت حال کو بے یقینی کی طرف جانے سے روکا جاتا لیکن افسوس برسراقتدار طبقہ نے اس موقعہ سے پھر کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور یہ جان بوجھ کر کیا جارہا ہے جس سے امن وامان کی صورت گمبھیرہوتی نظر آرہی ہے جس سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی کیونکہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر حالات کو وقت کے سپرد کردیا ہے۔ ادھر عمران خان نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اگر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لئے مناسب قدم اٹھایا جاتا اور سپریم کورٹ کو اس سلسلہ میں یاددہانی کرائی جاتی تو حالات بگڑنے سے بچ جاتے۔
لگتا یوں ہے کہ حکومت کو حالات کی سنگینی کا بالکل احساس نہیں ہے، کیونکہ اس نے ایک روایتی انداز فکر اپنا رکھا ہے کہ احتجاج کرنے والے خود بخود تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے جو کہ منفی طرز عمل ہے۔ حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ لوگوں کو اس وقت آگہی اور شعور اتنا آچکا ہے کہ خاموش رہنے سے بات نہیں بنے گی۔ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو اب تک ایک بااختیار کمیشن تشکیل پا چکا ہوتا بلکہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا سلسلہ بہت آگے بڑھ چکا ہوتا اور اپنے منطقی انجام کے قریب تر ہوتا جس سے قوم سکھ کا سانس لیتی اور تذبذب کی فضا ختم ہونے میں مدد ملتی اور مزید برآں تحریک انصاف کے پاس احتجاج کو طول دینے کا جواز باقی نہ رہتا اور حکومت کی ساکھ پر پڑنے والے مہیب سائے چھٹ چکے ہوتے اور ملک پر مسلط بے یقینی کی فضا ختم ہوچکی ہوتی۔ یہ بات حکومت کے قومی اقتصادی پروگرام کو آگے بڑھانے میں مدددیتی ۔ فی الوقت اس صورت حال سے اقتصادی ترقی کا پہیہ جام ہوچکا ہے اور خود حکومت کے بقول بیرونی سرمایہ کاری منجمد ہو چکی ہے۔ اس پیچیدہ صورت حال سے باہر نکلنا خود حکومت کے فرائض میں شامل ہے جس کا ذمہ دار اپوزیشن کو ٹھہرایا جانا مناسب نہیں۔