’’باب الاسلام سندھ داناؤں کی نظر میں‘‘ (2)
انسانوں کی اعلیٰ و ادنیٰ کی بنیاد پر تقسیم کا نظریہ ہندوانہ ہے۔ اس کا کچھ اثر ہندو ازم سے متاثر مذاہب بدھ ازم اور سکھ ازم پر بھی ہے۔آسمانی مذاہب، یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کو ایک عورت اور ایک مرد سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہونے والوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے ،لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے جس طرح ہندوؤں کے کئی نظریات اور رسوم و رواج اپنا لئے، اسی طرح اونچ نیچ کا نظام بھی اپنا لیا۔کہیں کچھ ذاتوں کو اعلیٰ قرار دے دیا گیا اور کچھ کو نیچ قرار دے دیا گیا۔کہیں یہ تقسیم پیشوں کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آئی۔ کاشت کاری کے علاوہ تمام پیشوں کو گھٹیا قرار دے دیا گیا اور ان پیشوں میں بھی بعض کو سب سے گھٹیا سمجھ لیا گیا۔ یورپی اقوام میں قبائل کی تقسیم اور پیشوں کے حوالے سے اُونچ نیچ نہیں پائی جاتی، لیکن کالے گورے کی تقسیم ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ خود کو مہذب سمجھنے والے امریکی معاشرے میں کالے گورے کی نفرت سے اکثر سانحات جنم لیتے رہتے ہیں، جبکہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے گورے سفید فاموں کی برتری کے نہایت شدو مد سے قائل ہیں۔ اس کے ردعمل کے طور پر کالے منظم ہوئے تو انہوں نے گورے کو شیطان کی اولاد قرار دے دیا۔ اب تک یہ نفرت دشمنی اور تفریق بدستور قائم ہے۔
پاکستانی مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جب انسان کے ماں باپ ایک ہیں تو پھر کسی علاقے، زبان، رنگ، نسل یا پیشے کی وجہ سے کیسے کوئی اعلیٰ اور کوئی ادنیٰ ہو سکتا ہے؟ ایسی کوئی بھی اونچ نیچ خلافِ عقل بھی ہے اور خلافِ اسلام بھی۔کسی خطے سے تعلق کوئی اعزاز ہوتا تو ارضِ کعبہ، بیت المقدس اور ویٹی کن میں رہنے والے سب سے زیادہ معزز مانے جاتے۔ دُنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ کسی زمین کی پیدائش کے وقت سے اُس پر آباد تھی۔ کوئی شخص جہاں جس خاندان میں پیدا ہوتا ہے ،اُس کا کوئی بس نہیں ،ورنہ ہر شخص اپنی پیدائش کے لئے کسی اچھے خاندان کا انتخاب کرتا۔ آج جو قوم یا نسل جہاں پر آباد ہے ،وہ ہمیشہ سے وہاں نہیں تھی۔انسان ہمیشہ سے قدرتی آفات بہتر وسائل کی خاطر اور دیگر وجوہات کی بنا پر ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنی رہائش تبدیل کرتا چلا آ رہا ہے۔ فرزندان زمین کا تصور محض ایک تصور ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ برصغیر کے اصل باشندے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موجودہ نسلوں کے آباؤ اجداد نے انہیں بے دخل کر دیا۔ اب دراوڑ بھیل وغیرہ ہیں، جنہیں نچلی جاتی قرار دیا جاتا ہے۔ جانے وہ کہاں سے آئے تھے اور اب اُن کو بے دخل کرنے والے اپنے آپ کو فرزندانِ زمین قرار دیتے ہیں تو اس دعوے میں کتنی سچائی ہے۔
امریکہ کی کہانی تو بالکل کل کی بات ہے ایک نو دریافت علاقے میں یورپ سے طالع آزما کھچے چلے آئے۔انہوں نے بستیاں بسائیں اور مقامی باشندوں کو کہیں تو نیست و نابود کر دیا اور کہیں انہیں مار بھگایا۔ اب امریکہ کے اصلی باشندے مخصوص علاقوں میں محدود کر دیئے گئے ہیں،جانے انہیں ریڈ انڈینز کا نام غلط فہمی کی بنا پر دیا گیا یا دوسرا خیال درست ہے کہ وہ بھی کبھی انڈیا سے ہجرت کر کے وہاں پہنچے تھے۔امریکہ میں ہر رنگ اور نسل کے لوگ آئے۔ سیاہ فاموں کو غلام بنا کر لایا گیا۔امریکہ میں یہ اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار تھے،لیکن حکومت ان پر برطانیہ عظمیٰ کی چلتی تھی۔ آزادی کے بعد وجود میں آنے والی ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انگلینڈ، آئر لینڈ، ہالینڈ، اٹلی، جرمنی اور ہر جگہ کے لوگ آباد تھے۔ ہم انہیں امریکی قوم کہتے ہیں۔ وہ خود بھی امریکی کہلاتے ہیں، لیکن یہ تمام کے تمام اب بھی اپنے اصل کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ آئرش امریکن،اٹالین امریکن، جرمن امریکن، چائنیز امریکن اور اب پاکستانی امریکن مل کر امریکی قوم بنتے ہیں، جن میں اب بھی گوروں کے بعد کالے ہیں، جو اب افریقی امریکن کہلاتے ہیں۔ امریکہ نے پر پُرزے نکالے تو اپنے اردگرد کی لاطینی(یا سپینش) ریاستوں کو قابو کر لیا۔ ٹیکساس، کیلیفورنیا، فلوریڈا وغیرہ سپینش علاقے تھے اب امریکن ہیں۔ ٹیکساس کبھی میکسیکو تھا، اب امریکہ، تو گویا کسی ریاست یا خطے کے تعلق سے بھی قوم کا کوئی اعتبار نہیں۔ ملکوں اور ریاستوں کی سرحدیں آگے پیچھے ہوتی رہتی ہیں۔ مشرقی یورپ کی کتنی ہی ریاستیں روس کے ٹوٹنے کے بعد وجود میں آئی ہیں، کبھی یہ روس تھیں، اب ازبکستان ہے، تاجکستان، بیلا روس اور لٹوانیا ہے۔
خطۂ زمین کی طرح زبان کا معاملہ بھی ہے۔ انسانوں نے ایک خطۂ زمین کو چھوڑا کسی اور جگہ جا کر آباد ہوئے یا وہاں کے لوگوں نے ان کی زبان اختیار کر لی یا انہوں نے اپنے میزبانوں کی زبان اختیار کر لی۔ یہودی عبرانی کو اپنی مذہبی زبان سمجھتے ہیں یہ معدوم ہو چلی تھی، لیکن یہودیوں نے اسے مذہبی جوش و جذبے سے دوبارہ زندہ کر لیا۔ایسے بے شمار یہودی ہیں، جو جہاں رہتے ہیں وہاں کی زبانیں بولتے ہیں، حالانکہ یہودی اپنے آپ کو ایک نسل سمجھتے ہیں، لیکن یہ جہاں بھی گئے وہاں کی زبان اختیار کر لی۔ یہودیوں میں ایک فرقہ ژیدش کا ہے، جس کی زبان بھی ژیدش ہے۔ امریکہ میں رہنے والے یہودی انگریزی بھی بولتے ہیں اور بعض ژیدش بھی بولتے ہیں۔ مصر اور لیبیا جغرافیائی لحاظ سے افریقہ کا حصہ ہیں، لیکن جب وہاں اسلام پہنچا تو اُن کی زبان عربی ہو گئی۔ ہم اُن کی زبان کی وجہ سے انہیں عرب سمجھتے ہیں۔ افریقہ کے کئی ممالک میں عربی زبان بولی جاتی ہے۔براعظم امریکہ میں وسطی اور جنوبی امریکی چھوٹے بڑے کئی مُلک ہیں۔ ارجنٹائنا ،بولیویا، چلی، کولمبیا، کوسٹاریکا، ایکوا ڈور، گنی، ال سلواڈور، گوئٹے مالا، ہنڈراس، میکسیکو، نکارا گوا، پیراگوئے، ڈومینیکن ری پبلک، پیرو، پورٹوریکو، وینس سوئیلا، یوراگوئے وغیرہ میں جو زبان بولی جاتی ہے اُسے سپینشن کہتے ہیں۔ یہ تمام ممالک کبھی نہ کبھی سپین کے قبضے میں رہے ہیں ،ان کی زبانوں میں ایک دوسرے سے تھوڑا بہت فرق بھی ہے، لیکن سب سپینش بولتے ہیں، جبکہ خود سپین میں جو زبان بولی جاتی ہے ،اسے کاستیانو کہا جاتا ہے، نہ تو یہ ممالک ایک زبان بولنے کی وجہ سے ایک قوم بنتے ہیں، نہ سارے مل کر ایک مُلک بن جانے پر آمادہ ہیں۔
اسلامی مُلک مراکش میں عربی کے ساتھ ساتھ بربری،فرانسیسی اور سپینش زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ موجودہ بھارت میں بولی جانے والی زبانوں کا کوئی شمار نہیں ہے۔ بائیس ایسی زبانیں ہیں جو تیرہ مختلف قسم کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ بھارت میں 720 بولیاں بولی جاتی ہیں۔ پنجاب اور وسطی بھارت کے لوگ شمالی بھارت کے لوگوں کی زبان کو بالکل بھی نہیں سمجھتے، ہم سمجھتے ہیں کہ چین میں صرف چینی زبان بولی جاتی ہے، ایک حد تک یہ بات درست ہو سکتی ہے، لیکن چینی زبان کی بھی مختلف شکلیں ہیں۔ مینڈرین بھی چینی ہے اور اکثر ایک خطے کے چینی مینڈرین یا دوسرے خطے کی چینی زبان نہیں سمجھتے۔اسی طرح دریاؤں سے سرزمینوں کے نام تو ہو سکتے ہیں، لیکن دریا بھی کوئی قوم تشکیل دینے کا باعث نہیں بنتے۔ سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی وادی میں رہنے والے خود کو سندھی کہلانے لگے، لیکن دریا بھی تو مختلف جگہوں سے گزرتے ہیں تو مختلف نام پاتے ہیں۔ خود دریائے سندھ کہیں زانکسر کہلاتا ہے کہیں ڈوڈا اور زانکسر میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ کہیں جا کر لنگناک دریا بن جاتا ہے۔ پنجند تک اس میں پانچ دریا جمع ہو جاتے ہیں، جس کے بعد بحیرۂ عرب تک یہ دریائے سندھ رہتا ہے۔ اٹک سے یہی دریا گزرتا ہے تو اسے سندھ بھی کہتے ہیں، اباسین بھی اور دریائے اٹک بھی اسی کی ایک شاخ ہے۔ دریائے کابل اٹک سے کچھ فاصلے پر اس میں شامل ہوتا ہے۔ خطوں کے نام پر اُن میں بسنے والے لوگوں یا قوموں کی وجہ سے بھی نہیں ہیں۔ پنجاب اس لئے پنجاب نہیں ہے کہ وہاں پنجابی رہتے ہیں وہ پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے اور جو وہاں رہتا ہے وہ پنجابی ہے۔ خواہ بلوچ ہو یا پٹھان وہ چاہے تو اپنی قدیمی شناخت کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ پاکستان کے ہر حصے میں تقسیم کے وقت ہجرت کرنے والے آئے، پنجاب میں بھی ان کی ایک کثیر تعداد آباد ہے۔ بلوچستان میں پٹھان بھی ہیں۔ دُنیا کا کوئی خطہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ جس نام سے معنون ہے اس میں صرف وہی لوگ رہتے ہیں۔ پنجاب میں صرف پنجابی نہیں ہو سکتے، سندھ میں صرف سندھی نہیں ہو سکتے،افغانستان میں صرف افغان نہیں ہیں۔
امریکہ میں جو رنگا رنگی ہے، بالخصوص نیو یارک میں، ایک زمانے میں اسےMelting Pot کہا جاتا تھا۔ جہاں مختلف اجزاء پگھل کر ایک دوسرے میں جذب ہو رہے ہیں، لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ ایسا نہیں ہے، تو اب اسے Tossing bowl of salad کہا جاتا ہے، یعنی سلاد کا پیالہ جس میں رنگ رنگ کی سبزیاں اور پھل وغیرہ ہیں جو ایک دوسرے میں جذب تو نہیں ہوتے، لیکن خوب مل جاتے ہیں۔ اگرچہ اپنے رنگ اور ذائقے بھی برقرار رکھتے ہیں۔کیا ہم اسی طرح پاکستان کو یا پاکستان کے صوبوں کو گلدستہ قرار نہیں دے سکتے، جس میں رنگا رنگ پھول ہیں، ہر پھول کا اپنا رنگ ہے، اپنی خوشبو،اپنی خوبصورتی ہے، لیکن وہ اس گلدستے کا حصہ ہیں اور یہی رنگا رنگی اس گل دستے کی خوبصورتی ہے۔ اگر پونے تین سو سال سے امریکہ کے سلاد کے پیالے میں اپنے اپنے رنگ اور اپنے اپنے ذائقے کی سبزیاں وپھل ہو سکتے ہیں اور وہ امریکی بھی کہلا سکتے ہیں۔ تو پاکستان کے گلدستے میں شامل پھول پاکستانی کیوں نہیں کہلا سکتے۔ مغرب نے عربوں میں ترکی کے خلاف عرب قومیت کا شوشہ چھوڑا اور پھر عرب قومیت ترقی پسندی کی علامت بن گئی، لیکن کیا سارا عرب، عرب قومیت پر یکجا ہو گیا ہے؟ کیا سارے گورے ایک مُلک بنا سکتے ہیں۔ یورپی یونین والے ہی ایک مُلک بن جائیں۔کیا افریقہ کے سارے سیاہ فام ایک مُلک بن جائیں گے؟ کیا وسطی اور جنوبی امریکہ کے سارے سپینش بولنے والے مُلک ایک ہو جائیں گے۔ زبانیں، نسلیں اور ر نگ اگر لوگوں کو یکجا کر کے ایک قوم بنا سکتے ہیں تو پھر ان ملکوں کو ایک ہو جانا چاہئے تھا، لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ زبانوں،رنگوں اور علاقوں سے نسبت کے تعلق کے اختلاف کے باوجود لوگ ایک لڑی میں پروئے جا سکتے ہیں،کوئی دُنیاوی نظریہ اگر انہیں پرو سکتا ہے تو اسلام ہی انہیں ایک لڑی میں پرو سکتا ہے۔
مَیں قارئین کرام سے گزارش کروں گا کہ وہ ’’باب الاسلام سندھ داناؤں کی نظر میں‘‘ ضرور پڑھیں اور محترم جناب جسٹس(ر) قدیر الدین احمد،مولانا ابو الجلال ندوی کا سندھ، سندھو اور عبدالتواب شیخ کے ’’سندھ میں دھاریا کون‘‘ کو ایک بار پھر پوری توجہ سے پڑھیں۔ یہ مقالات ذہن افروز ہیں، چشم کشا بھی اور دِلوں اور ذہنوں کے جالے صاف کرنے والے بھی ہیں۔