پنجاب میں میئرز و ڈپٹی میئرزکے لئے جوڑ توڑ
پنجاب کے تمام شہروں میں یونین کونسلوں کے الیکشن کے بعد میئر اور ڈپٹی میئر کے عہدے حاصل کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں میں دوڑ شروع ہو چکی ہے اور وہ ان عہدوں کے ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے وزراء اور ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کررہے ہیں۔ لاہور صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس شہر کی میئرشپ کے لئے دو امیدوار میدان میں آ چکے ہیں۔ ان میں وزیراعظم نوازشریف کے حلقہ نیابت کے کوآرڈینیٹر اور بیڈن روڈ لاہور کی یونین کونسل کے نومنتخب چیئرمین عارف حمید بٹ اور خواجہ حسان ہیں۔ یہ دونوں امیدوار الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی بھی جمع کروا چکے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواست بھی دے چکے ہیں۔ خواجہ حسان علامہ اقبال ٹاؤن سے بلامقابلہ چیئرمین یونین کونسل منتخب ہوئے تھے ،ان کے مد مقابل پی ٹی آئی کا امیدوار اور آزاد امیدوار بھی خواجہ حسان کے حق میں دستبردار ہو گئے تھے۔بعدازاں تحریک انصاف نے الزام لگایا تھا کہ ان کے امیدوار کو حکومت کے دباؤ پر الیکشن سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف نے اپنے امیدوار سے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ بھی دائر کروا دی ہے۔
خواجہ حسان جو وزیراعلیٰ پنجاب کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں،اب تک چھ یا سات سرکاری اداروں کے چیئرمین بھی رہے ہیں،جن میں لاہور کی میٹروبس لاہور کو صاف کرنے والی کمپنی، اورنج میٹروٹرین اور ایل ڈی اے لاہور کی وائس چیئرمین شپ شامل ہے۔ بعض وکلاء کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں یہ رٹ درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں کہ خواجہ حسان کیونکہ بعض سرکاری اداروں کے چیئرمین ہونے کے باعث سرکاری ملازم رہے ہیں، اس لئے وہ قانون و آئین کے تحت یہ سرکاری ملازمتیں چھوڑنے کے بعد دو سال تک انتظار کرکے ہی کسی منتخب عہدے کے لئے الیکشن لڑنے کے اہل ہوں گے۔اس لئے وہ غیر قانونی طور پر یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ خواجہ حسان نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان سرکاری اداروں کے چیئرمین کے طور پر وہ تنخواہ وصول نہیں کرتے رہے تھے ، اس لئے وہ سرکاری ملازم نہیں رہے، جبکہ وکلاء کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص تنخوا وصول نہ بھی کرے اور وہ ایک غیر منتخب سرکاری عہدے پر بیٹھ کر احکامات جاری کرے اور ادارے سے دیگر مراعات حاصل کرے تو وہ سرکاری ملازم تصور کیا جائے گا۔ بہرحال اس صورت حال نے میئرشپ کا عہدہ حاصل کرنے کی راہ میں خواجہ حسان کے لئے کافی مشکلات پیدا کردی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں بھی خواجہ حسان پر عہدوں کی بارش نے کئی سوالیہ نشان پیدا کر دیئے ہیں۔اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ میگا پراجیکٹس کا چیئرمین ہونے کے باعث لاہور کی میئرشپ لینے کے بعد خواجہ حسان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوگا کہ وہ لاہور میں منتخب یونین کونسلوں کے 274 چیئرمینوں، 274وائس چیئرمینوں اور سینکڑوں کونسلروں کے لئے ملاقات کا وقت نکال سکیں اور ان سے ان کے علاقوں کے مسائل سن سکیں، جبکہ ان کے مقابلے میں عارف حمید بٹ ایک سادہ شخصیت رکھنے والے ملنسار شخص ہیں اور وزیراعظم کے ماموں زاد بھائی ہونے کے باوجود ان میں غرور و تکبر اور طمع و لالچ نام کی کوئی چیز نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں بھی وہ ایک ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ ان کے مرحوم والد اور بھائی بھی اس حلقے سے اب تک سات الیکشن لڑ چکے ہیں اور ان کے مرحوم بھائی لاہور کے ڈپٹی میئر بھی رہ چکے ہیں، بہرحال لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے اور یہاں ایسے میئر اور ڈپٹی میئرز کی ضرورت ہے جو عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں۔ عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لئے شب و روز محنت کریں اور ان کی دیانت داری اور عوام دوستی مثالی ہو۔
اس وقت پنجاب میں ایسے بلدیاتی نمائندے بھی منتخب ہو چکے ہیں جو سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں، اس لئے یہ خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ پنجاب کے مختلف شہروں کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری ایسے شخص کو سونپی جائے، جس کا دامن جرائم کے داغوں سے پاک ہو۔ وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف جرائم اور کرپشن کے سخت مخالف ہیں، اس لئے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عوام سے براہ راست رابطہ رکھنے والے بلدیاتی نمائندوں میں سے بہترین افراد کا انتخاب کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔دوسرا اہم مسئلہ بلدیاتی عہدیداروں کے اختیارات کا ہے۔ ارکان اسمبلی نہیں چاہتے کہ بلدیاتی نمائندوں کو جنرل پرویز مشرف کے دور جیسے وسیع اختیارات دیئے جائیں،جبکہ بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات سے محروم رکھنے کا مطلب ہو گا کہ بلدیاتی انتخابات کروانے کے بنیادی مقصد ہی کی نفی کر دی جائے۔ موجودہ بلدیاتی انتخابات کے تحت زیادہ تر اختیارات نوکرشاہی کے پاس رکھے گئے ہیں۔ان اختیارات کے باعث سرکاری افسر بلدیاتی نمائندوں کی بات ماننے کی بجائے ارکان اسمبلی اور وزراء کے دباؤ میں کام کریں گے اور بلدیاتی انتخابات کروانے کا حقیقی مقصد فوت ہو جائے گا۔
باوثوق ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف کی شدید خواہش ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو دہی اختیارات تفویض کئے جائیں جو انہیں پرویز مشرف دور میں حاصل تھے، تاکہ وہ گراس روٹ لیول پر نہ صرف عوام کے مسائل حل کرنے کے قابل ہوسکیں، بلکہ نچلی سطح پر جمہوریت بھی مستحکم ہو سکے۔۔۔اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بھی خواہش ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو زیادہ اختیارات دیئے جائیں، تاکہ وہ گلی محلوں کے مسائل حل کرانے میں خود مختار ہوں۔ گڈگورننس کی جانب پیش قدمی کو جاری رکھنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ کسی منتخب شخص یا سرکاری افسر کو ایک سے زائد عہدہ نہ دیا جائے، تاکہ وہ یکسوئی سے اپنے فرائض سرانجام دے سکے اور ایک ہی دفتر میں عوام کی رسائی منتخب عہدیدار یا سرکاری افسر تک ہو سکے، البتہ بلدیاتی اداروں میں اکاؤنٹس اور آڈٹ کے نظام کو بہت مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ پبلک فنڈز کا بے جا اور غیرضروری استعمال نہ کیا جا سکے۔