ہر کسی کی جاسوسی ممکن،برطانیہ میں نیا متنازعہ قانون منظور کرلیاگیا
لندن(این این آئی)برطانوی پارلیمان نے ایک نئے لیکن بہت متنازعہ قانون کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت ریاستی اور پبلک سیکٹر کے اہلکار عملاہر کسی کی جاسوسی کر سکیں گے۔ اس قانون کے تحت ہر شہری کا انٹرنیٹ ریکارڈ حکام کی رسائی میں ہو گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق کسی بھی جدید معاشرے میں ریاستی اداروں کی طرف سے عام شہریوں کی نگرانی کے عمل کے لیے ’ہر جگہ نظر رکھے والے بِگ برَدر یا بڑے بھائی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں اب ہوا یہ ہے کہ وہاں ’بڑا بھائی اور بھی بڑا‘ ہو گیا ہے۔اس متنازعہ قانون کے مسودے پر سیاسی بحث کئی ماہ تک جاری رہی۔ لیکن پھر لندن میں ملکی پارلیمان نے اس کی منظوری دے ہی دی۔ اس نئے قانون کے تحت برطانیہ میں پولیس سے لے کر ملکی خفیہ اداروں تک اور فوڈ انسپکٹروں اور فائر بریگیڈ کے کارکنوں سے لے کر محکمہ ٹیکس کے انسپکٹروں تک کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی عام شہری کی انٹرنیٹ پر مصروفیات یا براؤزنگ تفصیلات کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔ایسا اس طرح ممکن ہو سکے گا کہ برطانیہ میں تمام ٹیلی کوم کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنا دیا گیا ہے کہ وہ ہر صارف کی انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کا مکمل ریکارڈ کم از کم بھی ایک سال تک محفوظ رکھنے کی پابند ہوں گی۔اس کا ایک ممکنہ نقصان یہ ہو گا کہ اول تو ہر ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کو اپنے صارفین کی آن لائن سرگرمیوں کا کم از کم ایک سال تک کا مکمل ریکارڈ رکھنا ہو گا۔
جو تکنیکی طور پر ایک بہت مہنگا اور پیچیدہ کام ہو گا اور دوسرے یہ کہ اس طرح وجود میں آنے والا ڈیٹا بیس خطرے سے خالی بھی نہیں ہو گا۔اس بل کو تفتیشی اختیارات کے مسودہ قانون یا ’انویسٹی گیٹری پاورز بل‘ کا نام دیا گیا ہے، جو برطانوی پارلیمان میں ایک سال سے بھی زائد عرصے تک جاری رہنے والی بحث کے بعد منظور کیا گیا۔انٹرنیٹ کے موجدوں میں شمار ہونے والے معروف سائنسدان برنرز لی نے اس قانون کی منظوری کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں اس کی منظوری کے دنوں کو ’سیاہ، بہت سیاہ دنوں‘ کا نام دیا ہے۔