کارکردگی
اب سے 100دن پہلے کارکردگی کی ڈگڈگی حکومت کے ہاتھ میں تھی ، 100دن بعد یہ ڈگڈگی اپوزیشن کے ہاتھ میں ہے مگر دونوں صورتوں میں عوام ناچ رہی تھی۔پہلے حکومت نے عوام کو اس کارکردگی دکھانے کی ڈگڈگی بجاکر نچایا اور اپوزیشن حکومت کی جانب سے پہلے 100دنوں میں کارکردگی نہ دکھانے کی ڈگڈگی بجاکر عوام کو نیچارہی ہے ۔ لیاقت بلوچ نے کبھی ازراہ مذاق کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مداری کے حصے میں کچھ بیوقوف لکھے ہوتے ہیں !
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن تو حکومت کی خراب کارکردگی کا رونا رو رہی ہے جبکہ ریاستی ادارے حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں ، وہ سب نیا پاکستان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی کارکردگی اپوزیشن کی جماعتوں کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے لیکن ریاستی اداروں کا نہیں کیونکہ ریاستی ادارے ہر پیش رفت کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے قائل ہوتے ہیں ، وہ وقتی مفاد اور فوری ردعمل کے حامی نہیں ہوتے بلکہ ٹھنڈا کرکے کھانے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اختیار کا ڈنڈا ہوتا ہے جسے کسی وقت بھی چلایا جا سکتا ہے ۔
اس سے بھی دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر کارکردگی ہی حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا معیار ہوتا تو نون لیگ گزشتہ پانچ سال میں بے پناہ کام کرنے کے بعد یوں بے آبرو ہو کر کوچہ ریاست سے باہر نہ ہوتی ۔ ان کی کامیابی کے لئے ا ن کی کارکردگی کافی ہونی چاہئے تھی مگر اس کے باوجود وہ انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ایسی کارکردگی کا کیا فائدہ جو انہیں دوبارہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان نہ کرواسکے۔آج لوگ نواز شریف سے ویسی ہی نفرت کا اظہار کرتے ہیں جیسی کبھی بھٹو کے ساتھ کی جاتی تھی ۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آیا نواز شریف کی سیاست ختم ہو گئی ۔ گملوں میں اگائی گئی پنیری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے؟۔۔۔یوں بھی عمران خان کو ووٹ دینے والوں نے عمران کے حق میں کم اور نواز شریف کے خلاف ثواب سمجھ کر ووٹ زیادہ شدومد سے ڈالا ہے ۔ ان کو عمران کو لانے سے زیادہ دلچسپی اس بات میں تھی کہ نواز شریف نہ آئے اور انہیں مبارک کہ ان کا مشن پورا ہو گیا۔
یہ عجیب بات ہے کہ ہر اپوزیشن کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ کسی بھی حکومت نے اپنے پہلے 100دنوں میں کیا نہیں کیا ہے ۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکومت پہلے 100 دنوں میں کیا کچھ کر چکی ہے ۔ ان کی تکرار اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ حکومت فیل ہو گئی ہے ، وعدے پورے نہیں کر سکی ہے، جبکہ حکومت کے پاس اپنے حق میں کہنے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے اور کل پوری قوم دیکھے گی کہ وزیر اعظم عمران خان کس کامیابی کے ساتھ اپنی حکومت کی کارکردگی کاجائزہ پیش کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پہلے 100دنوں میں پاکستان کو اتنا نقصان نہیں ہوا ہے جتنا اپوزیشن کی جماعتیں پہلے 100دنوں میں حکومت کی کارکردگی کو صفر ثابت کرکے پہنچانا چاہتی ہیں ۔ اگر حکومت نے قرضوں کی ادائیگی کے عدم توازن پر قابو پاتے ہوئے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچالیا ہے تو پہلے 100دنوں میں اس سے بڑھ کر کیا کامیابی ہو سکتی ہے ۔ اوپر سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی حکومت کے لئے سونے پر سہاگہ ثابت ہوسکتی ہے اور عوام پر مہنگائی کا وہ بم گرانے کی نوبت نہیں آئے گی جس سے اپوزیشن تسلسل کے ساتھ ڈرا رہی ہے اور حکومت کے لتے لے رہی ہے ۔
عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے ، وہ اسے وقت دینے کے لئے بھی تیار ہیں ۔ انہیں یقین ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت نے ان کے وسائل کو لوٹا ہے اور عمران خان میں لاکھ خامیاں ہوں، مگر اس کی ایک خوبی کہ وہ کرپٹ نہیں ہے ہر شے پر بھاری ہے، اگر ان کے دور میں لوٹی ہوئی دولت واپس آجاتی ہے تو عوام عمران خان کو ان کی نااہلی سمیت بھی قبول کرلیں گے، کیونکہ کرپشن اس ملک کا مسئلہ نمبر ایک ہے ۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر پاکستان پر قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ ہوتا اور ملک میں تحریک انصاف کی جگہ نون لیگ کا پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تو وہ کیا کرتے ؟ اگر وہ بھی وہی کچھ کرتے جو تحریک انصاف نے کیا ہے تو اس میں کیا خرابی ہے ۔ ہاں کسی کو اگر عمران خان، نواز شریف یا آصف زرداری کی شکل ہی پسند نہیں تو وہ الگ بات ہے ۔
یوں بھی کارکردگی کو دنوں ، مہینوں اور سالوں میں قید نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ پانچ سال بعد حکومت کی ساکھ اس طرح مجروح نہ ہو جس طرح پہلے 100دنوں کے اختتام پر نظر آرہی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت پانچ سال پورے ہی نہ کرپائے، جس میں کارکردگی کے علاوہ اور کئی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں ۔ کرکٹ کا شوقین آخری گیند تک انتظار کرتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کھیل کا پانسہ کسی وقت بھی پلٹ سکتا ہے !