عمران حکومت کے100 دن
پاکستان تحریکِ انصاف 2018کے عام انتخابات کے نتیجے میں حکومت میں آئی۔ انتخابات سے قبل عمران خان نے اقتدار میں آنے کی صورت میں طرزِ حکومت میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا اعلان کیا، جو کہ اس سے پیشتر کئی دہائیوں تک ابتر حالت میں تھی۔ ان کی انتخابی مہم کا سب سے اہم حصہ ان کا 100دن کا ایجنڈا تھا ۔اب جبکہ ان کے سو دن پورے ہونے کو ہیں ،صورتِ حال کسی حد تک امید افزء ہے۔ عمران خان کی ایمانداری اخلاص اور اس کا عزمِ صمیم اس کی شخصیت سے جھلکتا ہے۔ لیکن یہ محض آغاز ہے۔ اس کے اقتدار سنبھالنے سے پیشتر کرپشن ، فوجی مداخلت اور فسادات ریاست کے لیے بڑے اہم مسائل پیدا کر چکے تھے۔ سو دن کے ایجنڈے میں ایک کروڑ ملازمتوں کی فراہمی، غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر ،ٹیکس نظام کی بہتری ، سیاحت کا فروغ، صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام، صنعتوں کی بحالی ،توانائی بحران کا خاتمہ، معیشت کے استحکام کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کی شمولیت اور ریاستی اداروں کی اصلاح جیسے اہم وعدے شامل تھے۔ پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں نے اعتراف کیا ہے کہ محض سو دن کے قلیل عرصہ میں ان تمام بڑے اہداف کو حاصل کرنا یا ان منصوبوں کو شروع کرنا ممکن نہیں۔
لیکن ہمیں اتنی جلدی دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان وعدوں کی تکمیل کے لیے مزید ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ درکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین اور دانشور’’انتظار کرو اور دیکھو ‘‘ کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کرنے کے لیے ابھی زیادہ دیر نہیں گزری۔ عمران خان کے مخالفین کی نمبر گیم کے باوجود اس کی ابتدائی کارکردگی تجزیہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ حقیقت پسندی سے دیکھیں تو پی ٹی آئی حکومت ابتداء سے ہی مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔ جب نئی کابینہ نے حلف اٹھایا تو زرِ مبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکے تھے۔ عدم استحکام نے عمران خاں کو ایسے منصوبوں کو فوری روکنے پر مجبور کر دیا جن کے لیے خطیر سرمایہ درکار تھا۔ گزشتہ حکومت نے بھاری قرضے حاصل کر کے مزید قرضوں کے حصول کی راہیں مسدود کر دی تھیں۔ وہ بھاری قرضے ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر صرف کر دیے گئے۔ اس دوران خسارہ اور ادائیگیوں کے عدم توازن کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا گوارا نہ کیا گیا۔ اورنج لائن میٹرو ، نئے ائیر پورٹ کی تعمیر اور موٹر ویز کے توسیعی منصوبوں پر سرکاری خزانے کے اربو ں روپے کھپا دیے گئے۔
اس کے علاوہ تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس میں دی گئی چھوٹ نے آمدنی ٹیکس کو انتہائی محدود کر دیا۔ جس نے موجودہ خسارے کو انتہائی خطرناک سطح پر پہنچا دیا۔ عمران خان نے یہ تمام صورتحال عوام کے سامنے رکھتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا اس نے سرکاری اخراجات کم کرنے کے لیے ہنگامی ا قدامات اٹھائے جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آئے اگرچہ یہ اقدامات ابتدائی سطح کے تھے لیکن اگر پی ٹی آئی حکومت پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ان پر عمل پیرا رہنے میں کامیاب ہوگئی تو ان اقدامات کی بدولت اربوں روپے کا اسراف ختم کیا جا سکے گا۔ عمران خان کے اسراف کے خاتمہ کا آغاز اپنے گھر سے کرنے کو سراہا جانا چاہیے۔
قرضوں پر انحصار کا جواز گھڑ کر ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عمران خان خود سے دو مرتبہ سعودی عرب جا کر تیل کی ادائیگی کی مد اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے امدادی قرض پیکج لے کر آنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے چائنہ کے سفارتی مشن کو بھی قرضوں کے نام پر بدنام کیا گیا جبکہ وہ اس کے بر عکس سی پیک کے سیاسی سماجی اور معاشی سطح پر مقاصد کو واضح کرنے اور باہمی سطح پر تعاون کو بڑھانے کی ایک شاندار کوشش تھی عمران خان کے دورے کے نتیجے میں بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک پر عمل در آمد بحال کر دیا گیا۔ پہلی مرتبہ پاکستان نے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے قانون سازی میں مدد بھی طلب کی۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے ملک کو مستقبل میں اس مصیبت سے نجاب دلائی جا سکتی ہے۔ اس وقت قطر، ایران اور ملائیشیانے پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے نئے ولولے اور عزم کا اظہار کیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان دنیا کے با اثر ممالک کی صف میں جگہ بنانے جا رہا ہے۔
ورلڈ بینک کے ماہرین کے مطابق نئی منتخب حکومت نے اخراجات میں 30فیصد کمی کی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق ترقیاتی منصوبوں میں کمی 70فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے لیپ ٹاپ سکیم بند کر کے صرف ایک اقدام سے 8بلین روپے بچائے ہیں۔ تمام وفاقی اور صوبائی وزراء کے صوابدیدی فنڈز ختم کر دیے گئے ہیں۔سرکاری اور عوامی دفاتر کی تزئین و آرائش ، دیکھ بھال اور دیگر اخراجات کو بھی محدود کر دیا گیاہے۔ اسی طرح ایوانِ صدر، ایوانِ وزیرِ اعظم اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات میں نمایاں کمی کر کے اربوں روپے کی بچت کی گئی ہے۔ پر تعیش گاڑیوں اور غیر ملکی دورے پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کابھی خاتمہ کیا گیا ہے۔اگرچہ یہ اقدامات قومی بجٹ خسارے اور قرضوں میں نمایاں کمی کے لیے ناکافی ہین لیکن سیاسی قیادت کی حکمتِ عملی اور خواہشات کی عکاسی ضرور ہیں۔
حکومتی معاملات کو چلانے میں ایک اہم کردار بیوروکریسی کا ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی نے جب اقتدار سنبھالا تو بیشتر اہم وزارتوں میں وہی سیکرٹریز براجمان تھے جو مسلم لیگ نواز دور سے چلے آرہے تھے۔ عمران خان کے اداروں کو غیر سیاسی بنانے کے عزم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پی ٹی آئی نے تعیناتیوں اور تبادلوں میں ذاتی پسند نا پسند سے حتیٰ المقدور احتراز کیا۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت کو ’’تبدیلی‘‘ کے ضمن میں خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔اگرچہ اصلاحات کاعمل سست روی کا شکار ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد ضرور ہو گا۔ ’’صحیح کام کے لیے صحیح آدمی ‘‘ کے انتخاب کے لیے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑی تگ و دو کی بھی ضرورت ہو گی۔ عمران خان نے اعلیٰ اور متوسط درجے کی بیوروکریسی میں اصلاحات اور ضروری تبدیلیاں کرنے کے لیے کئی کمیٹیاں اور ٹاسک فورسز بنائیں ہیں۔ان کوششوں کا ثمر کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم انتظامی معاملات کو گرفت میں لے رہے ہیں۔اگرچہ کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ناکامیاں بھی نظر آرہی ہیں،تاحال سو دن کا ایجنڈا پایہ ءِ تکمیل کو پہنچتا نظر نہیں آ رہا لیکن یہ بھی واضح ہے کہ عمران خان اپنے تجربے اور نقطہءِ نظر کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔عمران خان ہر گزرتے لمحے سے سیکھ رہا ہے۔پی ٹی آئی حکومت درست سمت میں گامزن ہے۔معمولی چیزیں شاید غیر تسلی بخش منظر نامہ دکھانا چاہ رہی ہیں لیکن بہر حال امید کی کرنیں نظرآنا شروع ہو چکی ہیں۔ ملک کو اس وقت ایقان کے ساتھ ساتھ اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔
(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)