اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 56
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں کہ یمن کے بزرگوں میں سے ایک شخص کے بارے میں مَیں نے یہ سنا کہ وہ خوف و خشوع۔ تواضع اور حکمت میں یکسائے فن ہے جب میں حج کے لئے بیت اللہ گیا اور وہاں سے فارغ ہوا تو دل میں شوق پیدا ہوا کہ اس بزرگ یمنی کی زیارت کوئی چاہیے۔ جس کے بارے میں مَیں نے بہت کچھ سن رکھا ہے۔
میرے ساتھ چند اصحاب میرے ہم خیال بھی تھے اور ان میں ایک جوان ایسا تھا کہ صلحاء کی علامت سے اس کا چہرہ روشن اور خوف الہٰی کا پورا منظر تھا۔ بغیر کسی بیماری کے اس کا چہرہ زرد اور بلادرد کے اس کی آنکھوں سے پانی جاری رہتا تھا۔ تنہائی پسند تھا۔ دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی اس پر کوئی مصیبت پڑی ہے۔ ہم اسے ملامت کرتے ہوئے کہا کرتے کہ بھائی اپنے نفس پر اتنی سختی مناسب نہیں۔ کچھ آرام بھی کرلینا چاہیے۔ لیکن وہ سن کر چپ ہورہتا، کوئی جواب نہ دیتا۔
وہ جوان ہم میں یمن تک ساتھ رہا یمن پہنچ کر ہم نے اس بزرگ کا گھر تلاش کیا۔ دروازے پر پہنچ کر دستک دی۔ وہ بزرگ باہر آیا۔ ہم نے دیکھا اس کا چہرہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ابھی قبر سے اُٹھ کر آیا ہے۔
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سب سے پہلے ہم میں سے اس جوان نے سلام و کلا اور مصافحہ کیا۔ اس نے ’’مرحبا‘‘ کہا۔ پھر ہم سب نے بھی سلام کیا۔ پھر سب بیٹھ گئے۔
اس جوان نے ہم سب سے پہلے اس بزرگ سے بات چیت کرنی شروع کی اور کہنے لگا۔ ’’حضرت! آپ اور آپ جیسے بزرگوں کو حق تعالیٰ نے دلوں کے امراض طبیب اور معالج بنایا ہے اور میرے دل میں ایک زخم ہے اور ایسی بیماری ہے کہ وہ دل میں راسخ ہوچکی ہے اگر آپ اپنے پاس سے کچھ مرہم عنایت فرمائیں تو نہایت کرم و احسان ہوگا۔‘‘
شیخ نے فرمایا ’’جو کچھ تمہیں پوچھنا ہو پوچھو۔‘‘
جوان نے پوچھا ’’حضرت خوف الہٰی کی علامت کیاہے؟‘‘
شیخ نے فرمایا ’’جب خوف الہٰی ہوا کرتا ہے تو دوسرے سب خوفوں سے بندہ محفوظ ہوجاتا ہے اور اللہ ہی کا خوف دل میں گڑ جاتا ہے۔‘‘
وہ جوان یہ بات سن کر تھرا اٹھا پھر بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب ہوش میں آیا تو اس نے پوچھا ’’حضرت بندہ کو کب یہ یقین ہوتا ہے کہ مَیں خائف ہوگیا ہوں۔‘‘
شیخ نے فرمایا ’’دنیا کی لذتوں کو اس طرح چھوڑ دے جیسے کوئی بیمار بیماری بڑھ جانے کے خوف سے کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرتا ہے اور کڑوی دوا پر صبر کرتا ہے۔اسی طرح یہ خائف بھی دنیا کی لذتوں کو چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
یہ سن کر اس جوان نے ایسی چیخ ماری کہ ہم یہ سمجھے کہ اس کی روح عالم بالا کو پرواز کرگئی ہے۔ پھر دیر کے بعد اسے ہوش آیا تو اس نے شخ سے پوچھا ’’حضرت یہ فرمائیے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کی علامت کیا ہے؟‘‘
شیخ نے فرمایا ’’اے دوست محبت کا بہت بڑا درجہ ہے۔ جنہیں خداوند تعالیٰ سے محبت ہوجاتی ہے تو ان کے قبول سے حجاب اٹھادیا جاتا ہے اور وہ اپنے دلوں کے انوار سے محبوب حقیقی کی عظمت و جلال کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان کی روح روحانیہ، ان کے قلوب اور ان کی عقول سماویہ ہوجاتی ہیں اور وہ ملائیکہ کی جماعت کے ساتھ رہتے ہیں اور ان امور کو آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور حق تعالیٰ کی عبادت میں اپنی پوری استطاعت صرف کر ڈالتے ہیں اور اس عبادت سے نہ انہیں جنت کی طمع ہوتی ہے اور نہ ہی جہنم کا خوف۔‘‘
یہ سن کر اس جوان نے ایک چیخ ماری اور اللہ تعالیٰ کو پیارا ہوگیا۔ شیخ نے اسے بوسہ دیا پھر وہ روکر بولے ’’دیکھو خائفین کا تضرع اور محبین کا یہ درجہ ہے۔‘‘
***
مالک بن دینارؒ ایک روز بصرہ کی گلیوں میں پھررہے تھے کہ ایک کنیز کو نہایت جاہ و جلال کے ساتھ جاتے دیکھا۔ آپ نے اسے آواز دے کر پوچھا ’’کیا تیرا مالک تجھے بیچتا ہے۔‘‘
اس نے کہا ’’شیخ ! کیا کہتے ہو۔ ذرا پھر تو کہو۔‘‘
مالک نے کہا ’’تیرا مالک تجھے بیچتا ہے یا نہیں۔‘‘
اس نے کہا ’’بالفرض اگر فروخت بھی کرے تو کیا تجھ جیسا مفلس خریدلے گا۔‘‘
آپ نے فرمایا ’’ہاں، تو کیا چیز ہے، میں تجھ سے بھی اچھی خرید سکتا ہوں۔‘‘
وہ سن کر ہنس پڑی اور خادموں کو حکم دیا کہ اس شخص کو ہمارے ساتھ تک لے آؤ۔ خادم لے آیا۔ وہ اپنے مالک کے پاس گئی اور سارا قصہ بیان کیا۔ وہ سن کر بے اختیار ہنسا کہ ایسے درویش کو ہم بھی دیکھیں۔ یہ کہہ کر مالک بن دینارؒ کو اپنے پاس بلایا۔ آپ کو دیکھتے ہی اس کے قلب پر رعب چھاگیا۔ پوچھا ’’آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
آپ نے فرمایا ’’یہ کنیز میرے ہاتھ بیچ دو۔‘‘
اس نے کہا ’’آپ اس کی قیمت دے سکتے ہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا ’’اس کی قیمت ہے ہی کیا؟ میرے نزدیک تو اس کی قیمت کھجور کی دو سڑی گٹھلیاں ہیں۔‘‘
یہ سن کر سب ہنس پڑے اور پوچھنے لگے ’’یہ قیمت آپ نے کیوں کر تجویز فرمائی؟‘‘
آپ نے کنیز کی جانب دیکھتے ہوئے فرمایا ’’اس میں بہت سے عیب ہیں۔ عیب دار شے کی قیمت ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔‘‘
جب اس نے عیبوں کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا
’’سنو! جب یہ عطر نہیں لگاتی تو اس میں بدبو آنے لگتی ہے۔ یہ منہ صاف نہ کرے تو منہ گندہ ہوجاتا ہے۔ بوآنے لگتی ہے اور جو کنگھی چوٹی نہ کرے اور تیل نہ ڈالے تو جوئیں پڑجاتی ہیں اور بال پراگندہ اور غبار آلود ہوجاتے ہیں اور زیادہ عمر کی ہوجانے پر بوڑھی ہوکر کسی کام کی نہ رہے گی۔ حیض اسے آتا ہے۔ پیشاب پاخانہ یہ کرتی ہے۔ طرح طرح کی نجاستوں سے یہ آلودہ ہے۔ ہر قسم کی کدورتیں اور رنج و غم اسے پیش آتے رہتے ہیں۔ یہ تو ظاہری عیب ہیں، اب باطنی سنو۔ خود غرض اتنی ہے کہ تم سے جو محبت ہے۔ وہ غرض کے ساتھ ہے۔ یہ وفا کرنے والی نہیں اور اس کی دوستی سچی دوستی نہیں۔ تمہارے بعد تمہارے جانشین سے ایسی ہی مل جائے گی جیسا کہ اب تم سے ملی ہوئی ہے۔ اس لئے اس کا اعتبار نہیں اور میرے پاس اس سے کم قیمت کی کنیز ہے کہ اس کے لئے میری ایک کوڑی بھی صرف نہیں ہوئی اور وہ سب باتوں میں اس سے فائق ہے۔ کافور، زعفران مشک، جوہر اور نور سے اس کی پیدائش ہے ۔ اگر کسی کھاری پانی میں اس کا آب د ہن گرادیا جائے۔ تو وہ شیریں اور خوش ذائقہ ہوجائے اور جو کسی مردے کو اپنا کلام سنادے تو وہ بھی بول اٹھے اور جو اس کی ایک کلائی سورج کے سامنے ظاہر ہوجائے تو سورج شرمندہ ہوجائے اور جو تاریکی میں ظاہر ہو تو اجالا ہوجائے او رجو وہ پوشاک وزیور سے آراستہ ہوکر دنیا میں آجائے تو تمام جہاں معطر ہوج ائے۔ مشک اور زعفران کے باغوں اور یاقوت و مرجان کی شاخوں میں اس نے پرورش پائی ہے اور طرح طرح کے آرام میں رہی ہے اور تسنیم کے پانی سے غذا دی گئی ہے۔ اپنے عہد کی پوری ہے۔ دوستی کو نباہنے والی ہے۔ اب بتاؤ کہ ان میں سے کون سی خریدنے کے لائق ہے۔‘‘
وہ شخص بولا ’’جس کی آپ نے مدح و ثنا کی ہے یہی مستحق خریدنے اور طلب کرنے کے ہے۔‘‘
شیخ نے فرمایا ’’پھر اس کی قیمت تو ہر وقت ہر شخص کے پاس ہے۔ اس میں کچھ بھی صرف نہیں ہوتا۔‘‘
اس شخص نے پوچھا ’’جناب فرمائیے تو اس کی قیمت کیا ہے ؟‘‘
شیخ نے فرمایا ’’اس کی قیمت یہ ہے کہ رات بھر میں ایک گھڑی کے لئے جملہ ا مور سے فارغ ہوجاؤ اور نہایت اخلاص کے ساتھ دو رکعت پڑھو اور اس کی قیمت یہ ہے کہ کھانا جب تمہارے سامنے چنا جائے تو اس وقت کسی بھوکے کو خالص اللہ کی رضا لئے دے دیا کرو۔ اور اس کی قیمت یہ ہے کہ راہ میں اگر کو ئی نجاست یا اینٹ ڈھیلا پڑا ہوا اسے اٹھا کر استہ سے پرے ہٹادو۔ اور اس کی قیمت یہ ہے کہ اپنی عمر کو تنگ دستی اور فقر و فاقہ اور بقدر ضرورت سامان پر اکتفا کرنے میں گزاردو اور اس مکار دنیا سے اپنے فکر کو بالکل الگ کردو اور حرص سے برکنار ہوکر قناعت کی دولت کو لو پھر اس کا یہ ثمرہ ہوگا کہ کل تم بالکل چین سے ہوجاؤ گے اور جنت میں جو آرام کا مخزن ہے عیش اُڑاؤ گے۔‘‘
اس شخص نے ساری بات سننے کے بعد کنیز سے کہا ’’سنتی ہے شیخ کیا فرماتے ہیں۔ یہ سچ ہے یا جھوٹ۔‘‘
کنزی بولی ’’سچ کہتے ہیں اور خیر خواہی کی بات ارشاد فرماتے ہیں۔‘‘
وہ شخص بولا ’’اگر یہی بات ہے تو مَیں نے تجھے اللہ واسطے آزاد کیا اور فلاح فلاح جائداد تجھے دی اور پھر غلاموں سے کہا ’’تم کو بھی آزاد کیا اور فلاں زمین تمہارے نام کردی اور یہ گھر اور تمام مال اللہ کی راہ میں دیا۔‘‘دروازہ پر ایک بہت موٹا کپڑا پڑا تھا، اسے کھینچ لیا اور تمام پوشاک فاخرہ اتار کر اسے پہن لیا۔
اس کنیز نے یہ حال دیکھ کر کہا ’’تمہارے بعد میرا کون ہے؟‘‘
اس نے بھی اپنا لباس اتار کر پھینک دیا اور ایک موٹا کپڑا پہن لیا اور وہ بھی اس کے ساتھ ہوگئی۔ مالک بن دینارؒ نے یہ حال دیکھ کر ان کے لئے دعائے خیر فرمائی۔(جاری ہے )