ڈی پی او گجرات علی محسن کاظمی اور یورپ میں مقیم ’’اشتہاری‘‘
برطانیہ اور یورپ میں کثیر تعداد میں ایسے پاکستانیوں نے سیاسی پناہ کیلئے درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں جنہیں مبینہ طور پر پاکستان میں اپنی جان کا خطرہ ہے یا وہ خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزرنے پر مجبور ہیں۔ ان ہزاروں افراد میں چند ایک ایسے بھی ہیں جنہیں حقیقی معنوں میں اپنے ملک میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے مگر اکثریت ایسے خود ساختہ مہاجرین کی ہے جو ایک عرصہ ان ممالک میں گزارنے کے بعد مخصوص مدت پوری ہونے کے قوانین سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لیگل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عرب ممالک میں چھپ کر اچھے دنوں کا انتظار کرنے والے کبھی نہ کبھی پکڑے جاتے ہیں مگر یورپ میں بسنے ولے کوئی نہ کوئی کہانی بنا کر بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں برطانیہ کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیامیں ایک پولیس آفیسر سید علی محسن کاظمی کی ویڈیو کے چرچے ہر خاص وعام کی زبان پر تھے جس میں وہ میرے عزیز ہم وطنوں سے خطاب کر رہے تھے۔ چونکہ برطانیہ اور یورپ میں کثیر تعداد میں ایسے اشتہاری مجرمان جو پنجاب پولیس کو مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں اور ان میں اکثریت کا تعلق سرزمین گجرات سے ہے کے لیے سید علی محسن کاظمی کا پرکشش خطاب ایک انہونی تھا ۔ان یورپی ممالک کی مختلف ایجنسیوں نے بھی ایک پاکستانی اعلی پولیس آفیسر کے اس خطاب کو سنجیدہ لیا جس میں وہ ان اشتہاریوں کو جو دیار غیر میں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہیں کو واشگاف الفاظ میں ایمنسٹی دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے یہ آفر دی کہ اگر کوئی بے گناہ ہے اور اس پر جھوٹے مقدمات بنے ہیں تو وہ بلاخوف وخطر پاکستان آ جائے، بے گناہی ثابت ہونے پر اسکے مقدمات خارج کر دیے جائیں گے۔ ان کے اس اعلان کے بعد حقیقی معنوں میں بے گناہ افراد نے ان یورپی ممالک سے رخت سفر باندھنے کا فیصلہ کیا تو دوسری طرف یورپی ممالک نے بھی ایسے نام نہاد مہاجرین کو بھی ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا جن کے سیاسی پناہ کے کیس کمزور تھے ۔
اس سلسلہ میں برطانوی ذرائع ابلاغ کے ذریعے انہیں پاکستانی پولیس آفیسر سید علی محسن کاظمی کی ایمنسٹی سکیم کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ ویسے تو پاکستان کے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ان یقین دہانیوں پر کوئی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں مگر جب چند ایسے افراد جو اس ایمنسٹی سکیم سے استفادہ حاصل کر چکے ہیں کے بعد ان کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے ۔ویسے تو یہ حیران کن امر ہے کہ ایک پولیس آفیسر کو برطانیہ اور یورپی ممالک کے ذرائع ابلاغ میں اتنی اہمیت دی گئی جو بلاشبہ ایک عظیم کارنامہ ہے وگرنہ حکومتی وزرا و مشیر بھی یہ مقام حاصل نہیں کر سکتے ۔مذکورہ پولیس آفیسر نے یہ مقام کیسے حاصل کیا اور وہ کس طرح ان ممالک میں یہ جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے؟ اس پر بحث تو نہیں کی جا سکتی مگر یہ امر مصدقہ ہے کہ وہ پہلے پولیس آفیسر ہیں جو قانون کا پیغام گلی گلی ، کوچہ کوچہ اور یورپ میں مقیم عزیز ہم وطنوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ۔
(مرزانعیم الرحمان معروف صحافی اور روزنامہ’’پاکستان‘‘ کے گجرات میں بیورو چیف ہیں ،وہ ان دنوں برطانیہ آئے ہوئے ہیں اور وہاں بھی اپنے ’’صحافتی فرائض‘‘ سرانجام دینے سے غافل نہیں ہیں)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے ۔