ایک رسیلی، سجیلی اور طلسماتی شخصیت
ان کی آنکھوں میں چمک اور لہجے کی کھنک وہی تھی، اگرچہ وہ گلے کی خرابی کے باعث بات نہیں کرپارہے تھے،لیکن ہمارا ان سے مکالمہ ہورہا تھا،ان کی سانسوں کی لے پر گفتگو کا ساز بج رہا تھا۔مَیں علمی و ادبی شخصیت سابق سیشن جج اعجاز بٹر کے ساتھ سیشن جج صہیب رومی سے ملاقات کے بعد اعجاز بٹر کے ساتھ ڈاکٹر اجمل نیازی کی تیماری داری کو نکلا۔ صہیب رومی اگرچہ عدلیہ کی محتاط زندگی گذار رہے ہیں،لیکن وہ زرخیز ذہن کے مالک ہیں اور ایک زرخیز ذہن میں ہی خوشنما خیالات کے پھول اُگتے ہیں،جن کی خوشبو سے انسانی حیات معطر ہو کر رہ جاتی ہے۔ صہیب رومی کے دولت کدے پر سینئر سول جج جمیل کھوکھر بھی جلوہ افروز تھے، جو صہیب رومی سے ملاقات کا حظ اٹھانے چلے آئے تھے۔ جمیل کھوکھر مدھم لہجے کے مالک ہیں۔ صہیب رومی تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ فکر و فن نے انہیں عجز و محبت سے سرفراز کررکھا ہے اور عجز و محبت کسی معتبر انسان کی متاع حیات ہوا کرتی ہے۔ اعجاز بٹر علم و ادب کی دولت سے مالا مال ہیں، ایسا علم جس کی روشنی ان کے تمام ملنے والوں تک پھیل رہی ہے اور ایسا ادب جس نے ان کے دوستوں کو بھی مودب کررکھا ہے۔ اجمل نیازی کے گھر پہنچے تو یادوں کے قافلے آنکھوں کے سامنے رقص کرتے دکھائی دئیے۔ خیالات کی چلمنوں سے پرے کتنے ہی ہنستے مسکراتے اور خوشگوار لمحے تھے، جہاں اجمل نیازی کی والدہ رونق افروز ہیں، مَیں ان کے ہاتھ پر بوسہ دے رہا ہوں اور وہ فرط محبت سے میرا ہاتھ چوم رہی ہیں۔ اجمل نیازی کی نیک بخت اہلیہ کھانا لا رہی ہیں۔ مَیں اجمل نیازی سے تخلیق اور تحقیق پر بات کررہا ہوں اور وہ بڑے اطمینان سے جواب دے رہے ہیں۔ مَیں اشعار کی فرمائش کرہا ہوں، وہ عطا فرمارہے ہیں:
وہ شخص جیسے رات کے پچھلے پہر کا وقت
آیا تھا گھر میں صبح کے پیغام کی طرح
اک عمر سے مَیں ہجر کے غار حرا میں ہوں
اترا ہے میرے دل میں وہ الہام کی طرح
مَیں کہہ رہا ہوں آپ اپنی شعری تخلیقات کو کتابی شکل کیوں نہیں دیتے؟ باجی رفعت(اجمل نیازی کی اہلیہ) کہہ رہی ہیں، ندیم مَیں بارہا انہیں ان کی شاعری گھر کے کونوں سے اکٹھی کرکے دے چکی ہوں، تاکہ یہ شائع کروا لیں۔ اجمل نیازی مسکراہٹوں سے ٹال رہے ہیں اور اپنی آنکھوں سے ممنون احسان ہیں۔ محبتوں کے امین اورخوشبوؤں کے سفیر جناب مجید نظامی نے آصف زرداری کو مرد حر کا خطاب دیا تھا اور آصف علی زرداری نے اجمل نیازی کو ان کی صحافتی خدمات پر ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ مَیں نے کہا نیازی صاحب، آپ مسودہ کسی پبلشر کو دیں،پبلشر تو آپ کے گھر کا طواف کرتے ہیں اور آپ سے دیگرکتب پر فلیپ لکھواتے ہیں،تاکہ ان کی کتابیں مارکیٹوں میں پڑی نہ رہیں۔کہتے ہیں،یار لوگ کاہل ہوتے ہیں،مَیں بحر الکاہل ہوں،اب ایسا جواب کوئی شہرتوں سے بے نیاز شخص ہی دے سکتا ہے۔ شائد اسی لئے انہوں نے اپنے کالم کو بے نیازیاں کا نام دیا۔اجمل نیازی سے میری محبتوں اور رفاقتوں کا سلسلہ کوئی پچیس سال پر محیط ہے۔ اس عرصہء حیات میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مَیں نے اجمل نیازی سے کچھ عرض کی اور انہو ں نے نفی کی ہو۔اجمل نیازی کی بہن کی آواز مجھے خیالوں کے اس پار سے کھینچ لائی کہ اجمل بھائی آ رہے ہیں۔ وہیل چیئر پر انہیں کمرے تک لایا گیا توایک بار پھر تصورات کے پردے اٹھے،جہاں اجمل نیازی بڑے جوبن میں ہیں،انہیں وہیل چیئر پر دیکھ کر کتنے ہی اداس نغمے انگڑائیاں لینے لگے۔
اعجاز بٹر اور مَیں ان کے دائیں بائیں جا بیٹھے۔ اجمل نیازی کی آنکھیں مسکرا اُٹھیں، انہیں اپنی بیماری پر کوئی ملال نہیں تھا۔ جسم کمزور پڑ چکا تھا، لیکن آنکھوں میں تمازت اور جذبات میں وہی حرارت تھی۔وہ آہستہ آہستہ ہم سے بات کرنے لگے۔ باتوں کا بادل برسنا چاہتا ہے۔ اجمل نیازی جوہر ٹاؤن کے ڈاکٹرز ہسپتال سے ڈیفنس نیشنل ہسپتال میں داخل ہوئے، نیشنل ہسپتال ہی میری والدہ ماجدہ مرحومہ’’جنت مکین‘‘ زیر علاج رہیں۔ اجمل نیازی کسی ایک عارضے کو لے کر ہسپتال پہنچے تو دیگر بیماریوں نے بھی انہیں آلیا۔ وہ بہت سنجیدہ صورت حال سے نکل کر کچھ بہتر ہوئے ہیں، لیکن ابھی چل پھر نہیں سکتے۔ بتایا گیا کہ صبح کے وقت انہیں پکڑ کر کچھ قدم چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اللہ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے کہ اجمل نیازی صحافت و ادب کا خزانہ ہے اور اس خزانے کی دولت کو وہ بانٹ رہے ہیں۔ ان سے فیضاب ہو کر کئی لوگ منزلوں کا سراغ پا گئے۔ اجمل نیازی جیسے لوگ اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں۔ وہ ایک شخصیت ہیں اورشخصیات کا بڑا فقدان ہے۔ نوائے وقت کے معمار جناب مجید نظامی ایک شخصیت تھے۔ انہوں نے میری صحافتی راہوں کا تعین کیا ہے۔ مجید نظامی نے مجھے لکھا کہ محنت کرو،محنت کا ہی ثمر ملتا ہے۔ انہوں نے میری والدہ ماجدہ کے انتقال پر دلاسہ دیا،دعائیں دیں۔
جناب مجیب الرحمن شامی ایک شخصیت ہیں، جنہیں مَیں اپنی محنتوں کے ثمر اوردعاؤں کے اجر سے تعبیر کرتا ہوں۔ مجیب الرحمن شامی صاحب نفاستوں اور محبتوں سے معمور شخصیت ہیں، صحافت کی دنیا میں ان کا نام ایک سند اور ادب میں ان کا نام ایک حوالہ ہے۔ ان سے میری محبتوں اور عقیدتوں کا سلسلہ پرانا ہے،جب مَیں نے ان کے موقر روزنامہ ”پاکستان“ کے لئے لکھنا شروع کیا تو جناب مجیب الرحمن شامی صاحب نے باقاعدہ اپنے اخبار کے لئے لکھنے کی اجازت دے کر عزتوں کی رفعتوں پر فائز کیا، جس پر مَیں اور میرا دل ان کے شکرگزار رہیں گے۔ مَیں نے اجمل نیازی کو جب بتایا کہ جناب مجیب الرحمان شامی صاحب نے مجھے بھی اپنے اخبار کے قابل سمجھا ہے تو بہت خوش ہوئے۔ آج انہوں نے پوچھا کہ کالم لکھ رہے ہو ناں؟ تو عرض کی کہ ہاں روز نامہ ”پاکستان“ کے لئے باقاعدگی سے لکھتاہوں توانہوں نے بہت سراہا……آفتاب اقبال نے ایک بار اپنے کالم میں لکھا کہ وہ اور اجمل نیازی کسی ائیر پورٹ پر ساتھ تھے تو لوگ ان کی بجائے اجمل نیازی کی طرف لپکے،آفتاب اقبال لکھتے ہیں کہ مَیں سمجھتا ہوں اجمل نیازی چاند پر بھی جائیں گے تو لوگ انہیں پہچان لیں گے۔ بلا شبہ آفتاب اقبال نے درست لکھا تھا۔اجمل نیازی کی شخصیت ایسی ہی طلسماتی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ اعتراف آفتاب اقبال کی بھی وسعت قلبی ہے۔ آفتا ب اقبال ایک علمی و ادبی گھرانے کے فرزند ارجمند ہیں، جنہوں نے پریس میڈیا کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر بھی پروگراموں کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا، جیسے فیض احمد فیض، قتیل شفائی، ساحر لدھیانوی،مجروح سلطان پوری، احمد راہی…… ایسے دیگر شعراء نے ادب کو فلم ا نڈسٹری میں متعارف کرایا تھا۔ اجمل نیازی اپنی والدہ اور بھائی کی رحلت کے بعد بہت اداس رہنے لگے ہیں۔ یہی اداسی ان کی بیماری میں ڈھل گئی ہے۔ اللہ انہیں جلد صحت یاب کرے کہ اجمل نیازی بڑے رسیلے اور سجیلے شخص ہیں۔