آرمی چیف کی مدت ملازمت کامعاملہ لیکن کیا حکومت نے ایسی ہی غلطی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس میں بھی کی؟ خبرآگئی

آرمی چیف کی مدت ملازمت کامعاملہ لیکن کیا حکومت نے ایسی ہی غلطی جسٹس قاضی فائز ...
آرمی چیف کی مدت ملازمت کامعاملہ لیکن کیا حکومت نے ایسی ہی غلطی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس میں بھی کی؟ خبرآگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دور ان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہاہے کہ کابینہ وزیراعظم کے ذریعے صدر کو ایڈوائس بھیجتی ہے، میرا مدعا ہے کابینہ کی منظوری ضروری ہے،کسی بھی شخص کے خلاف اس وقت تک تحقیقات نہیں ہوسکتیں جب تک متعلقہ انتظامیہ اجازت نہ دے۔

بدھ کو سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز کیخلاف ریفرنس معاملہ پر سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہاکہ 10 مئی کو اے آر یو کو اداروں کی جانب سے دستاویزات موصول ہوئیں۔ جسٹس عمر عطائ بندیال نے کہاکہ رولز آف بزنس میں تو اے آر یو کا ذکر نہیں۔ منیر اے ملک نے کہاکہ اے آر یو نے 10 سال کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے نجی تحقیقاتی کمپنی کی خدمات حاصل کیں۔

منیر اے ملک نے کہاکہ ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی اے آر یو نے تحقیقات کیں۔انہوں نے کہاکہ ریاست کی جانب سے کسی شہری کے خلاف کوئی بھی اقدام قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔جسٹس عمر عطائ بندیال نے کہاکہ آرٹیکل 4 اس حوالے سے کہتا ہے کہ ریاست کوئی قدم اٹھائے گی تو اس کے پیچھے قانونی وجوہات ہوں گی۔ منیر اے ملک نے کہاکہ اے آر یو کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کیلئے قانون سیکشن آف پاور کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ شہری کوئی بھی ایسا قدم اٹھا سکتا ہے جو قانون کے خلاف نہ ہو۔انہوں نے کہاکہ ریاستی ادارے یا اہلکار صرف وہ اقدامات کرسکتے ہیں جن کی قانون میں اجازت ہے۔انہوں نے کہاکہ ایگزیکٹیو اتھارٹی ماورائے قانون کوئی اقدام نہیں کرسکتی، اگر کوئی انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے غلط اقدام کو عدالت کالعدم کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اداروں کو اور انتظامیہ کو اختیارات قانون ہی دیتا ہے۔انہوں نے کہاکہ افتخار چودھری کیس اعلی عدلیہ کے جج کے مس کنڈکٹ سے متعلق تھا، صدر نے افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔

منیر اے ملک نے کہاکہ اب کابینہ وزیراعظم کے ذریعے صدر کو ایڈوائس بھیجتی ہے، میرا مدعا ہے کہ کابینہ کی منظوری ضروری ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ کابینہ معاملہ صدر کو بھیجتی ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جج کے مس کنڈکٹ کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کے بجائے کابینہ کرے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا، میں نے کہا کہ ریفرنس کی منظوری کابینہ دیتی ہے، اے آر یو کے سربراہ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن دیکھ لیں۔منیر اے ملک نے کہاکہ یہ نوٹیفکیشن جسٹس قاضی فائز کیخلاف تحقیقات سے پہلے جاری ہوا یا بعد میں، تحقیقات پہلے شروع ہوئیں اور شہزاد اکبر نے ہی کروائیں۔منیر اے ملک نے کہاکہ بعد میں وزیراعظم نے شہزاد اکبر کو اپنا معاون خصوصی تعینات کیا، شہزاد اکبر کو اختیار نہ تھا کہ جج کے مس کنڈکٹ کی تحقیقات کرے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیا وزیراعظم اپنے اختیارات کسی کو دے سکتا ہے۔منیراے ملک نے کہاکہ کسی بھی شخص کے خلاف اس وقت تک تحقیقات نہیں ہوسکتیں جب تک متعلقہ انتظامیہ اجازت نہ دے۔ انہوں نے کہاکہ افتخار چودھری کیس میں اس قانون کا تعین ہوچکا، صدر کو اختیار حاصل ہے لیکن صدر کی جانب سے تحقیقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہاکہ ڈوگر کی شکایت پر شہزاد اکبر نے تحقیقات کروائیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اے آر یو نے برطانیہ میں جج کی تحقیقات کیلئے نجی کمپنی کو رکھا۔منیر اے ملک نے کہاکہ جی ایسا ہی ہے۔ بعد ازاں سماعت سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔