او آئی سی سے جائز توقعات

او آئی سی سے جائز توقعات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر دیگر وزرائے خارجہ سے بات ہو گی،انہوں نے نیامے میں سیکرٹری جنرل او آئی سی سے ملاقات کی اور مسئلہ فلسطین سمیت مسلم اُمہ کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کیا،اُن کا کہنا تھا کہ او آئی سی کے ذریعے اسلامو فوبیا کی حوصلہ شکنی کے لئے پیغام جانا چاہئے۔اس  رجحان کے خلاف مسلمانوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل کو کشمیر میں انسانی حقوق  کی سنگین خلاف  ورزیوں سے آگاہ کیا اور کہا بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنا چاہتا ہے، مودی سرکار کی ہندوتوا  سوچ خطے کے امن و امان کے لئے خطرے کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں کشمیریوں پر مظالم سامنے لانے کا موقع ملے گا،اسلامو فوبیا کے خلاف اجلاس میں قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ خبر درست نہیں کہ او آئی سی کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر شامل نہیں، بھارت اس قسم کا پروپیگنڈہ کر رہا ہے اور انڈین میڈیا اسے اچھال رہا ہے،جب قرار دادیں آئیں گی تو واضح ہو جائے گا کہ مسئلہ کشمیر ایجنڈے پر ہے یا نہیں،مجھے او آئی سی سے یہی توقع ہے کہ کشمیر پر واضح موقف سامنے آئے گا،او آئی سی کا موقف پہلے بھی وہی تھا اب بھی وہی ہے۔او آئی سی، اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے،پوری مسلمان اُمہ اس کی رکن ہے،اِس لئے مسلمانوں کو جب کبھی اور جہاں کہیں مشکل صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے وہ رہنمائی کے لئے او آئی سی کی طرف دیکھتے ہیں، ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوتا ہے بھارت نے کشمیر کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر اپنا حصہ بنا لیا ہے،حالانکہ اقوام متحدہ آج بھی کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہے اور سیکرٹری جنرل کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اِس مسئلے کا حل عالمی ادارے کی قرار دادوں کی روشنی میں نکالا جانا چاہئے،لیکن مقامِ افسوس ہے کہ بھارت کو اس اقدام سے باز رکھنے کے لئے عالمی ادارے اور دُنیا کی بڑی طاقتوں نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔بھارت نے کشمیر کو ضم کرنے کے بعد اب تک وہاں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، انٹرنیٹ اور موبائل فون پر پابندیاں اب بھی عائد ہیں،انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں،بھارت سے غیر کشمیریوں کو لا لا کر ریاست میں آباد کیا جا رہا ہے، سابق فوجیوں کے لئے خصوصی کالونیاں بنائی جا رہی ہیں، غیر کشمیریوں کو جائیدادیں خریدنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور اُنہیں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے جا رہے ہیں، اِن تمام اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کی مسلم اکثریت کی واحد ریاست میں آبادی کا تناسب غیر مسلموں کے حق میں کر دیا جائے، ریاست کی گھریلو صنعتوں اور زراعت کو برباد کر دیا گیا ہے، مضبوط معیشت کی حامل اس ریاست کو دانستہ معاشی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔
یہ تمام حالات اور اقدامات اِس بات کے متقاضی ہیں کہ عالمی ادارے اور بڑی طاقتیں اس جانب توجہ کریں،لیکن اُن کی بھی اپنی اپنی مصلحتیں ہیں، ان حالات میں پاکستان  نے بجا طور پر او آئی سی سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور وزیر خارجہ نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر غور کیا جائے گا اور قراردادوں میں بھی اِس جانب توجہ مبذول رکھی جائے گی اُن کی طرف سے ایسی وضاحت اِس لئے بھی ضروری تھی کہ بھارتی میڈیا یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تو او آئی سی کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں، بھارتی سفارتی حلقے اندر خانے یہ کوششیں کر رہے ہوں گے کہ مسئلہ کشمیر کانفرنس میں زیر بحث نہ آئے اور بھارتی میڈیا اپنے دفتر خارجہ کی ہدایات کی روشنی میں یہ پروپیگنڈہ مہم چلا رہا  ہے،کیونکہ او آئی سی کے بعض رکن ممالک کے ساتھ اس کے خصوصی تعلقات ہیں اور وہ بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں،جس کا بھارت فائدہ اٹھاتا ہے۔ وزیر خارجہ نے درست کہا کہ قراردادوں میں پتہ چل جائے گا کہ کشمیر کے مسئلے پر غور ہوا یا نہیں۔یہ پاکستان کی ڈپلومیسی کا بھی امتحان ہے کہ کشمیر کے معاملے پر ایک مضبوط قرارداد منظور کرائی جائے،جس کے اثرات بھارت میں محسوس کئے جائیں،کیونکہ کلامِ نرم و نازک بھارتی حکمرانوں کو زیادہ متاثر نہیں کرتا، چونکہ دُنیا نے بھی مجموعی طور پر کشمیر کے معاملے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور جس طرح کا عالمی ردعمل آنا چاہئے وہ نہیں آ رہا،اِس لئے اب ساری نظریں او آئی سی پر لگی ہوئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا او آئی سی  کے ایجنڈے سے کشمیر کے غائب ہونے کا پروپیگنڈہ صرف بھارتی میڈیا ہی کا پھیلایا ہوا ہے یا کچھ ایسی باتیں بھی ہوئی ہیں،جن کی وجہ سے اِس بات کو ہوا ملی، ایک تو یہ ہے کہ کانفرنس کی سائیڈ لائن پر کشمیر کے رابطہ گروپ کا بھی کوئی اجلاس نہیں ہو سکا۔ شاہ محمود قریشی کو اس امر کی وضاحت بھی کر دینی چاہئے تھی،لیکن وہ اس معاملے میں خاموش رہے،جس کی وجہ سے شکوک و شبہات پھیلے، او آئی سی پر سعودی عرب کے اثرات غیر معمولی ہیں اور یہ تنظیم کو ئی ایسا فیصلہ کرنے سے ہچکچاتی ہے جو سعودی حکومت کی خارجہ پالیسی سے مطابقت نہ رکھتا ہو، ملائشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے مسلمان اُمہ کو در پیش مسائل پر غور کے لئے جو کانفرنس بُلائی تھی،اس میں وزیراعظم پاکستان نے شرکت نہیں کی تھی،حالانکہ جب گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر یہ تجویز سامنے آئی تو پاکستان اس کانفرنس کے لئے بہت پُرجوش تھا،لیکن جب کانفرنس عملاً انعقاد پذیر ہوئی تو وزیراعظم عمران خان کی غیر حاضری کو محسوس کیا گیا،اس کے ازالے کے لئے بعد میں انہوں نے ملائشیا کا دورہ ضرور کیا،لیکن یہ دورہ کانفرنس کی غیر حاضری کا نعم البدل نہیں ہو سکتا تھا نہ ہوا، اِس کے باوجود سعودی حکومت نے کسی نہ کسی انداز میں پاکستان کی اس پالیسی پر ناخوشی کا اظہار کیا، پاکستان کو اس حوالے سے محتاط ہونا چاہئے تھا،پرانے دوستوں کو نظر انداز کر کے نئے دوستوں کے ساتھ پینگیں بڑھانا بین الاقوامی تعلقات میں بھی پسندیدہ نہیں۔ یہ درست ہے کہ سعودی عرب سے بھارت کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، اور دونوں کے معاشی مفادات بھی اپنی جگہ ہیں،اس کے باوجود پاکستان سے تعلقات متاثر نہیں ہوئے،ان کی گہرائی اور گیرائی اپنی جگہ ہے۔سعودی عرب نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی موقف میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی۔امید کی جانی چاہئے کہ او آئی سی کی قرارداد سے مظلوم کشمیری عوام کو نیا حوصلہ ملے گا، اور وہ ان کی سفارتی، سیاسی اور  نظریاتی تقویت کا سامان کر سکے گی۔

مزید :

رائے -اداریہ -