گورننس کے ایشیائی ماڈل
سوچنے سمجھنے والے دماغ صدیوں سے سیاسی نظاموں کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔ ریاست اور حکومت سازی کے حوالے سے بہتر سے بہترین تک پہنچنے کی کوشش ابھی تک جا ری و ساری ہے۔ جب ہم پا کستان میں مختلف سیا سی جماعتوں کی جانب سے نئے پاکستان، بہتر پاکستان یا سبز انقلاب کی باز گشت سنتے رہتے ہیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ مو ثر اور کرپشن سے پاک حکومت، گڈ گورننس اور استعدادِکار پر مبنی حکومت جیسے نعرے صرف پا کستانی ہی نہیں،بلکہ ایک عالمی مظہر ہیں۔مغر ب، کہ جہاں کے سیاسی، معاشی، سماجی، تہذیبی اور عمرانی نظر یا ت کو گز شتہ کئی صدیوں سے پو ری دنیا میں پذیرا ئی اور قبولیت حا صل رہی ہے وہا ں پر بھی ریا ست اور حکومت کے کردار کو مزید بہتر بنا نے کے حوالے سے نظریا ت سامنے آتے رہتے ہیں۔18ویں اور 19ویں صدی میں جب یورپ کے کئی ممالک ایشیا اور افر یقی مما لک پر قابض ہو ئے تو دیگر کئی یورپی نظریات کی طرح مغر بی جمہوریت کا نظریہ بھی ان ممالک میں متعارف ہوا۔ اسی جمہوری نظریے کو بعدازاں یورپی طاقتوں سے آزاد ہونے والے کئی ممالک نے بھی اپنایا۔1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد تو مغربی جمہوریت کو ایک مقدس نظریے کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔چو نکہ تبدیلی ہی اس دنیا کی کئی مسلمہ صداقتوں میں سے ایک صداقت ہے،اس لئے کسی ایک ہی مخصوص نظر یے کو حتمی قرار دے دینا جدلیاتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب خود مغر ب سے بھی ایسی آوازیں آرہی ہیں کہ صرف لبر ل جمہو ریت ہی حتمی سچا ئی نہیں ہے۔
امریکہ کے ایک نجی تھنک ٹینک Berggruen Institute سے تعلق رکھنے والے دو دانشوروں ”نتہان گارڈلز“ اور”نکولس برکرون“کی جا نب سے لکھی گئی کتاب Intelligent Governance for the 21st Century: A Middle Way Between West and East میں ثا بت کیا گیا ہے کہ موجودہ دور میں مغربی ریا ستیں استعداد کا ر پر مبنی گورننس فراہم کر نے میں نا کام ہو تی جا رہی ہیں۔بجٹ خساروں، اور جمہوریت کے نا م پر اپنے حامیوں کوریا ستی ذرائع سے نوازنے جیسے عوامل مغر بی ریا ستوں کی اہلیت کو بری طرح سے متا ثر کرنا شروع ہو گئے ہیں۔اس کتاب میں اس تا ثر کی مکمل طور پر نفی کر دی گئی ہے کہ ا ب مستقبل قریب میں بھی مغربی سیا سی نظر یا ت ہی ریا ستوں اور حکومتوں کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر یں گئے، کیونکہ اب خود مشرق میں بھی ایسے سیاسی ماڈلز ابھر رہے ہیں جو نہ صرف مغربی جمہو ریت سے مختلف ہیں،بلکہ ان ایشیا ئی ما ڈلز کی استعدادکا ر پر مبنی حکو متی نظاموں سے مغر ب کو بھی بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔ اس وقت مشرق نہ صرف معا شی اعتبا ر سے، بلکہ ریا ست سازی کے اعتبا ر سے بھی آگے بڑھ رہا ہے۔خا ص طور پر چین میں جس طرح لیڈر شپ اور سول بیورو کر یسی کو تربیت فراہم کی جا تی ہے اس کی کو ئی مثال اس وقت مغرب کے کسی بڑے ملک میں موجود نہیں۔
استعداد کار پر مبنی حکومت کے حوالے سے ایشیا وہ سب کچھ تیزی سے حا صل کر رہا ہے کہ جس کو حا صل کر نے میں مغر ب کو صدیاں لگ گئیں۔کتاب کے مصنفین کے مطا بق چین کی حیران کن ترقی کی بڑی وجو ہ میں ریا ستی ہدا یا ت کے مطابق کی جانے ولی سرما یہ کاری اور انفراسٹرکچر کی ترقی ہے۔ گورننس پربھر پور توجہ دینے کے با عث ہی آج ایشیا ئی ماڈل(چین) میں حکومت سنجیدہ اور منظم نظر آتی ہے،جبکہ مغربی حکومتوں میں نظم و ضبط کا پہلو آہستہ آہستہ مفقود ہو تا جا رہا ہے۔چین کا ابھار اور اس کی سما جی ترقی ہی وہ بڑے عوامل ہیں جو ایشیائی ماڈل میں کشش پیدا کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں انتخابا ت جیتنے کے لئے ووٹرز سے ایسے ایسے وعدے کئے جا تے ہیں، جن کا پورا ہونا ممکن نہیں ہوتا، جبکہ سیاسی جما عتیں اقتدار حا صل کرنے کے بعد طویل المدتی بنیا دوں پر منصوبہ بندی کر نے کی بجا ئے اگلے انتخابا ت جیتنے کے لئے محض سطحی نوعیت کے اقدا ما ت کر تی ہیں، جبکہ چین میں لیڈر شپ کو با قا عدہ تربیت دینے کے بعد حکو مت کرنے کا ایسا طویل عرصہ دیا جاتا ہے، جس میں سیا سی عدم استحکا م کی گنجا ئش انتہا ئی کم ہو تی ہے۔
یوں چین کی لیڈر شپ معاشی اور سماجی ترقی کے اہداف حاصل کر نے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے،جبکہ حکومتی ذمہ داری کا تعین واضح طور پر نہ ہونا،خا ص طبقا ت کو ہی نوازنا،اور سیاسی عدم استحکام ایسے عوامل ہیں،جو مستقبل میں بھی مغربی ریاستوں کی استعدادکا ر کے لئے مسئلہ بن سکتے ہیں۔یوں اب اچھی حکمرانی کے لئے مغربی ممالک کے حکمرانوں کو جہاں مغر بی جمہو ریت کے تا ریک اور منفی پہلوؤں کو چھوڑ نا ہوگا وہاں ایشیا ئی ما ڈل کے صرف مثبت پہلووں جیسے میرٹ اور استعدادکار پر مبنی پہلووں کو بھی اپنا نا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اچھی حکمرانی قائم کرنے کے لئے اب مغربی سیاسی نظریات کے ساتھ ساتھ مشرقی تجربات سے بھی فائدہ اٹھانا ہوگا۔
کتا ب کے تبصرے سے قطع نظر ہم جا نتے ہیں کہ اس وقت عملی اعتبا ر سے کو ئی بھی ایسا سیا سی نظام موجود نہیں جو کامل ہو، جس کاکوئی منفی پہلو نہ ہو۔ نظری اور فکری اعتبا ر سے ایسے نظام ضرور موجود ہیں،مگر اس کتاب کو دیکھ کر یہ اندازہ ضرور ہو جا تا ہے کہ اب دنیاکو سیا سی نظریات عطا کر نے میں مغرب کی اجارہ داری کم ہو تی جارہی ہے، کیونکہ اب خود مغرب کے فکری گلی کو چوں سے ایشیا ئی ماڈل کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔