میت پر سیاست
اب یہ بات بھی کوئی کرنے کی ہے کہ شریف برادران کی والدہ محترمہ شمیم اختر کا جسدِ خاکی کارگو سے کیوں بھیجا جا رہا ہے؟…… کسی نے سچ کہا ہے کہ سیاست دانوں کے سینے میں دِل نہیں ہوتا۔ اللہ کے بندو میت والے تابوت ہمیشہ کارگو سے ہی آتے ہیں، انہیں مسافروں کی طرح سیٹ پر رکھ کر نہیں لایا جاتا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مرحومہ کی میت کو لانے کے لئے چارٹر طیارہ کرانا چاہئے تھا، کیونکہ نوازشریف چارٹر جہاز سے لندن گئے تھے تو کیا صاف نہیں لگے گا کہ وہ تعصب کی زبان بول رہا ہے؟میت عام فلائٹ سے آئے یا چارٹر جہاز سے، آنا تو اس نے تابوت کی شکل میں ہی ہے۔ حکومتی مشیروں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ جب وہ سیاسی مخالفت میں اول فول باتیں کرتے ہیں تو اُلٹا ان کا اور حکومت کا تاثر عوام کی نظروں میں گر جاتا ہے۔یہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان مشیر تو وزیراعلیٰ پنجاب کی ہیں، لیکن ان کا ذکر تو کبھی کبھار کرتی ہیں، زیادہ تر سیاسی گولہ باری ہی جاری رکھتی ہیں۔
اب ان کے اس بیان سے کتنے لوگ متاثر ہوئے ہوں گے کہ نوازشریف لاہور سے کھانے بھی جہاز پر منگواتے تھے،لیکن والدہ کی میت کو کارگو سے بھجوا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میت خصوصی جہاز سے بھجوائی جاتی تو یہ اعتراض ہونا تھا کہ شریف خاندان کے تو مرنے والوں کی میتیں بھی چارٹر طیارے میں آتی ہیں، کیونکہ اس کے پاس لوٹ مار کی دولت بہت ہے۔ ابھی کل جمعہ کو لندن میں مرحومہ شمیم اختر کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور آج ان کا جسد خاکی پاکستان پہنچے گا، لیکن ایک تابوت کی تصویر سوشل میڈیا پر چار دن سے چل رہی ہے کہ بیگم صاحبہ کا تابوت جہاز میں رکھا جا رہا ہے۔ شاید اس کو دیکھ کر وزیراعظم کے بعض مشیر اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان یہ دور کی کوڑی لائیں کہ تابوت کارگو سے آ رہا ہے، حالانکہ خود چارٹر طیارے استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں تو ایسی باتیں سن کر ہی گھن آتی ہے، نجانے یہ لوگ ایسی باتیں کر کیسے لیتے ہیں؟
ایک غلطی تو مریم نواز سے بھی ہوئی جب انہوں نے ٹویٹ کرکے کہا کہ انہیں حکومت نے دادی کی وفات سے آگاہ نہیں کیا۔ شاید وہ اچانک خبر ملنے پر ایسا ٹویٹ کر گئیں، جو بعد میں خاصی جگ ہنسائی اور تنقید کا باعث بنا۔ یہ بات شہباز شریف اور حمزہ شہباز کہتے تو کوئی بات بھی تھی، کیونکہ وہ گرفتار تھے اور ان کے پاس موبائل فون کی سہولت بھی نہیں تھی۔مریم نوازشریف کے پاس تو تمام آزاد ذرائع موجود تھے اور جس وقت یہ خبر پہنچی،اس وقت وہ بلور ہاؤس پشاور میں ظہرانے پر موجود تھیں۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ اس میں حکومت کو الزام دینے کا تو کوئی جواز اِس لئے نہیں تھا کہ یہ ذاتی نوعیت کی خبر تھی، جو خاندانی یا پارٹی ذرائع سے ان تک پہنچ جانی چاہئے تھی۔ اب پی ٹی آئی والے یہ کہتے ہیں کہ میت پر سیاست کا آغاز خود مریم نواز نے کیا اور حکومت کو ایک ایسا الزام دیا، جس کا سرے سے کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ کئی روز اس پر لے دے ہوتی رہی، تاہم مریم نواز نے پھر اس ٹویٹ پر زور نہیں دیا۔ ممکن ہے انہوں نے جب ٹویٹ کیاہو، اس وقت وہ اس خبر کی وجہ سے صدمے کے زیر اثر ہوں اور انہیں یہ لگا ہو کہ حکومت نے جان بوجھ کر ان سے یہ خبر چھپائی، لیکن بعدازاں تحریک انصاف کے ترجمانوں نے جس طرح میت کے معاملے کو لے کر سیاست کی اسے کسی بھی طرح مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
نوازشریف نے اگر اپنی والدہ کی میت کے ساتھ نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے، اس کے فائدے یا نقصان کے ذمہ دار بھی وہ خود ہیں۔یہ پہلا موقع تو نہیں کہ سیاست نے یہ دن دکھائے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کے جنازے میں تو گھر کے کسی فرد کو جانے ہی نہیں دیا گیا تھا۔ نوازشریف اگر سمجھتے ہیں کہ فی الوقت ان کا پاکستان آنا ان کے لئے مناسب نہیں تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ماں کی تدفین کے لمحات سے دور رہ کر انہوں نے جو اذیت اٹھائی ہے،یہ وہی جانتے ہوں گے۔مریم نواز کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان واپس آنا چاہتے تھے، لیکن پارٹی نے انہیں منع کیا، کیونکہ یہاں کی حکومت انتقام سے بھری بیٹھی ہے اور ان کے خلاف کچھ بھی کر سکتی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ حکومت نوازشریف کو واپس لانا چاہتی ہے، اس سلسلے میں کوششیں بھی جاری ہیں اور برطانوی محکمہ داخلہ کو خطوط بھی لکھے گئے ہیں۔ اب اگر حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے کہ نوازشریف اپنی والدہ کی میت کو لے کر پاکستان آئیں،تاکہ انہیں گرفتار کیا جا سکے تو یہ انتقامی سوچ ہے۔ ہاں یہ بات درست ہوتی اگر حکومت یہ اعلان کرتی کہ نوازشریف اگر والدہ کی میت کے ساتھ آنا چاہتے ہیں تو آئیں، انہیں نہ تو گرفتار کیا جائے گا اور نہ ہی لندن واپسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جائے گی۔
نوازشریف کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ وہ بزدل ہیں، بدنصیب ہیں، دنیا دار ہیں کہ اپنی والدہ کی تدفین کے وقت بھی پاکستان نہیں آ رہے، ایک گھٹیا عمل ہے، جس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔اسی کو سیاست کہتے ہیں اور اسی بنیاد پر یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ حکومت میت پر سیاست کر رہی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ جس طرح وزیراعظم عمران خان نے بیگم شمیم اختر کی وفات پر اظہارِ تعزیت کرنے میں دیر نہیں لگائی، اسی طرح وہ ان کے جنازے میں بھی شریک ہوں۔ اگر وہ چودھری برادران کے گھر چودھری شجاعت حسین کی تیمارداری کے لئے جا سکتے ہیں، تو جاتی امراء بھی شریف خاندان سے اظہار تعزیت کے لئے بھی انہیں جانا چاہئے۔ اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ تاثر یکسر زائل ہو جائے گا کہ حکومت شریف خاندان کی ایک بزرگ شخصیت کی رحلت پر بھی سیاست کررہی ہے۔ تدفین کے وقت نوازشریف نہ سہی، شہبازشریف تو موجود ہوں گے، ان سے اظہار تعزیت کرکے وہ یہ اچھا پیغام دے سکتے ہیں کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، دُکھ سکھ میں انسانی جذبوں کے تحت ہم ایک ہیں۔
نوازشریف نے مریم نواز سے کہا ہے کہ وہ قل خوانی کی رسم سے فارغ ہو کر ملتان کے جلسے میں ضرور جائیں، کیونکہ ہم ایک جدوجہد سے گزر رہے ہیں، جس میں ذاتی غم پس پردہ چلے جاتے ہیں۔ اگر مجبوریوں کی وجہ سے نوازشریف اپنی والدہ کی میت کے ساتھ پاکستان نہیں آئے تو اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ انہوں نے انتہائی کرب اور بھاری دِل کے ساتھ کیا ہو گا۔ اسے ان کا ذاتی فیصلہ سمجھ کر نظر انداز کیا جائے۔ اس کا بھلا ان کی سیاست سے کیا تعلق ہے۔ اس بات کو ان کے خلاف طعنہ زنی کے لئے استعمال کرنا ایک سنگدلانہ فعل ہے۔ اسی طرح شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی پیرول پر رہائی کو بھی خواہ مخواہ طول دیا گیا، پنجاب حکومت نے جو بھی فیصلہ کرنا تھا، پہلی فرصت میں کر دیتی تو یہ ایشو بھی اتنا نہ بڑھتا۔ بہتر یہی ہوگا کہ ہم اپنی سیاست کو بچگانہ عمل سے دور رکھیں اور بالغ نظری کے ساتھ ایسے اندازِ فکر کو اپنائیں۔