کرے جو تبصرہ کس میں بتاؤ ہمت ہے
"کہ اب کی بار مرا قافیہ محبت ہے"
میں چاہتا بھی یہی تھا وہ بے وفا نکلے
سنا ہے اس کو مری اب نہیں ضرورت ہے
تمہارے زخم پہ مرہم لگادے آکر جو
زمانے میں کہاں کس کو بتاؤ فرصت ہے
خدا نے تجھ کو نوازہ نہیں ہے دولت سے
ضرور اس میں مرے رب کی کچھ مشیّت ہے
غزل کے شعر کو ہم نے لہو سے لکھا ہے
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں میری شہرت ہے
کیا جو کرتے ہیں اردو سے رات دن نفرت
کیوں ان کے دل میں بتاؤ بھری کدورت ہے
جولوگ دل میں محبت کا تیر رکھتے ہیں
گلے سے اُن کو لگانے کی مجھ کو چاہت ہے
کہاں سے لاتا ہے قیصر تو فکر کے موتی
تری غزل کے ہر اک شعر میں فصاحت ہے
کلام :قیصر امام قیصر (گریڈیہ جھار کھنڈ، بھارت )