تماشائی
ایک کرکٹ میچ میں چند کھلاڑیوں کے کھیل اور کسی فلم یا ڈ رامے میں اداکاری کرتے ہوئے چند اداکاروں کو لاکھوں، کروڑوں تماشائی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد لوگ اپنے روزمرہ کے معمولات میں پھر سے مگن ہو جاتے ہیں اور کچھ دیر بعد اس کرکٹ میچ، اس ڈرامے یا فلم کو بھول جاتے ہیں۔ ایک بات پر ذرا غور کیجئے، بات صرف میچ، ڈراموں یا فلموں تک محدود نہیں ہے۔ یہ تماشائی روش ہماری زندگی کے تمام پہلوﺅں کو گھیرے ہوئے ہے اور کسی بُری عادت یا نفسیاتی بیماری کی طرح ہمیں لاحق ہو چکی ہے۔ ا کثر ہمارے سننے میں آتا ہے کہ فلاں ہمارا غریب جاننے والا غربت کی وجہ سے بیٹی کی شادی نہیں کر پا رہا۔ فلاں ہمارے عزیز کا بیٹا بیروزگار ہے، فلاں شخص کسی موذی مرض بیماری میں مبتلا ہے اور فلاں آدمی مالی پریشانی کا شکار ہے۔ ہم یہ باتیں بہت غور سے سنتے ہیں، ان پر افسوس کرنے کے بعد اپنے معمولات میں پھر سے مصروف ہو جاتے ہیں۔ گویا یہ تمام مسائل ہمارے لئے ایک تماشے سے زیادہ نہیں تھے۔
ہم ٹی وی پر خبریں سنتے ہیں۔ آج کراچی میں اتنے لوگ مارے گئے، فلاں جگہ آج دھماکہ ہو گیا اور وزیراعظم سمیت تمام بڑے سیاست دانوں نے بھرپور مذمت کی۔ فلاں شخص نے غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر خود سوزی کر لی۔ فلاں سیاست دان پر کرپشن کا الزام ثابت ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ہم افسوس سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتے۔گویا یہ سب بھی ایک تماشہ ٹھہرا۔ ٹاک شوز میں سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشاں کرتے دیکھتے ہیں۔ اس بے نتیجہ بحث میں ہم اپنی پسندیدہ جماعت کے نمائندہ کو جیتتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں ہمیں نتائج سے زیادہ تماشہ دیکھنا عزیز ہوتا ہے۔ میرے بچپن کی چند یادوں میں سے ایک واضح یاد بندر کا تماشہ ہے۔ جی ہاں آپ نے بھی اکثر کہیں نہ کہیں یہ تماشہ ضرور دیکھا ہو گا، چند لوگوں کی بھیڑ میں ایک مداری اپنے بندر کو مختلف اشاروں پر نچا رہا ہوتا ہے۔ بندر مخصوص کرتب دکھاتا ہے۔ ہم اس سے لطف اندوز ہونے کے بعد چند سکے مداری کی طرف اچھل کر چلتے بنتے ہیں۔
ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ہمارے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے والا وہ بندر کن حالات میں ہے۔ کیا مداری اسے وقت پر کھانا دیتا ہے؟ کہیں وہ اپنے مالک کے ظلم و ستم کا شکار تو نہیں؟ اپنے گردو نواح میں دیکھئے ہمیں بے شمار ایسے لوگ نظر آئیں گے، جو اس بندر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ بندر مختلف طبقات میں بٹے ہوئے ہیں اور مختلف مداریوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور ہم ان کے لئے کچھ نہیں کر پا رہے ، کیونکہ ہمیں دوسروں کی تکلیف، آنسو، دُکھ اور محرومیاں تماشہ لگنے لگی ہیں۔ ہمارے مداری بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں، اس لئے وہ لوگوں کی تکلیفوں اور دُکھوں کو تماشائی رنگ دے کر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ جنونِ تماش بینی میں ہم اصل حقیقت تک کبھی نہیں پہنچ پاتے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اس تماشائی جنون سے نکلیں تو ہی کسی کی مدد کر پائیں۔
آج بحیثیت قوم اپنے آپ کو دیکھئے، کیا ہم نام نہاد قوموں کے سامنے تماشہ نہیں بن چکے؟ کیا ہمارا بال بال قرضے میں نہیں جکڑا ہوا؟ کیا ہم اپنی سالمیت اور خود مختاری کو بیچنے پر نہیں تلے ہوئے؟ ہمارا حال بھی گاﺅں کے اس غریب کسان کی طرح ہے، جس کی ظالم زمیندار کے ہاتھوں مال تو کیا عزت تک محفوظ نہیں ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ہمارا مذہب کیا ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے غریب بھائی کی غربت کا، کسی کی بیروزگاری کا، کسی کی بے بسی کا تماشہ دیکھیں؟
ہمارا مذہب تو یہ کہتا ہے اگر کوئی غریب ہے، تو اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس کی مدد کرو۔ اپنے بھائی کی طرف اٹھتی ہوئی تلوار کے سامنے خود ڈھال بن کر کھڑے ہو جاﺅ۔ بے کسوں، مجبوروں کو گلے سے لگاﺅ، ان کا تماشہ مت دیکھو۔ اس بات کی سمجھ ہمیں تب تک نہیں آئے گی، جب تک ہم خود تماشہ نہیں بنیں گے، پھر تقدیر کو کوسنے کا یا کسی سے شکوہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہمیں اب اپنے اس رویے کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اس بُری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ ہمیں ان مداریوں کو پہچاننا ہو گا، جو حقیقت کو تماشائی رنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں، جن کے پاس کسی مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ اگر ہم یہ نہیںکر سکتے تو ایک وقت وہ بھی آئے گا، جب ہم تماشہ بن رہے ہوں گے اور کوئی ہماری مدد کو آئے گا اور نہ ہماری حقیقت پہچان پائے گا۔ ٭