کشمیریوں کا لندن میں تاریخی مارچ
حق خود ارادیت کے حصول کے لئے اہل کشمیرنے اتوار کولندن میں تاریخی ملین مارچ کا اہتمام کیا۔یہ مارچ برطانوی دارالحکومت میں ٹریفالگر سکوائر سے شروع ہو کر وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ پر ختم ہوا۔اس کا مقصد عالمی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول کرانا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اس تنازعے کو حل کرانے کے لئے بھارت پردباؤ ڈالنا تھا۔ مارچ میں حریت کانفرنس کے رہنماؤں اور آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ دنیا بھر سے انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور برطانوی و یورپی ممبران پارلیمان نے شرکت کی۔ پاکستان،امریکہ ، برطانیہ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے کشمیریوں کے علاوہ سکھ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ مارچ کے شرکاء کے مطابق کشمیریوں کی بڑی تعدادنے اس ملین مارچ میں شرکت کر کے ثابت کر دیاہے کہ وہ بھارت کے غاصبانہ قبضے کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے ، انہوں نے عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بند کرانے اور کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کرانے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے مداخلت کرکے مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی اپیل بھی کی۔
مارچ کرنے والوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ مسئلہ دراصل برطانیہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے اس لیے برطانیہ کو چاہئے کہ وہ اسے حل کرنے میں مدد کرے۔بھارت کی طرف سے کی جانے والی ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کی بھی شدید مذمت کی گئی اور اسے بند کرانے پر زور دیا گیا۔بھارتی حکومت نے اس مارچ کو روکنے کے لیے سفارتی سطح پر بھر پور کوششیں کیں لیکن اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ بھارتی میڈیا نے تو تعصب پسندی کی انتہا ء کرتے ہوئے مارچ کے شرکاء کی تعداد کو چھ سات سو تک محدود کردیا۔ بھارتی میڈیا کا موقف تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی برطانوی حکومت سے اس مارچ کو روکنے کے لئے بات چیت نے اس مارچ کو اہم بنا دیا ورنہ شاید کسی کو اس کے ہونے کا پتہ بھی نہ چلتا۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کی جانبداری ایک طرف ، اس ملین مارچ کی اہمیت سے انکا ر تو بے حد مشکل ہی معلوم ہوتا ہے۔اس مارچ کا انعقاد 26 اکتوبرکو کیا گیا، کشمیر کے حوالے سے اس تاریخ کی اپنی ایک اہمیت ہے ۔ 1947ء میں اسی تاریخ کو کشمیر کے راجہ ، مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ مبینہ الحاق کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ ا س معاہدے کو ’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘(Instrument of Accession)کا نام دیا گیا تھا۔ اس وقت کے گورنر جنرل آف انڈیا، لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے جوابی خط میں لکھا تھا کہ پالیسی کے تحت الحاق کا فیصلہ اس علاقے میں رہنے والوں کی مرضی ہی سے کیا جانا چاہئے، یہ ان کی حکومت کی خواہش ہے کہ کشمیر میں حالات پر امن ہوتے ہی کشمیریوں کی منشاء کے مطابق اس مسئلے کو حل کر لیا جائے۔ پاکستان نے بھارت اور راجہ ہری سنگھ کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کو دھوکہ قرار دیتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کرد یا ۔ اس معاہدے پر اب بھی بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو اس کی حقیقت کو مشکوک بناتے ہیں۔ 26 اکتوبر کو برطانیہ میں احتجاج کر کے کشمیری حکومت برطانیہ کو اس کا پرانا وعدہ یاد دلانا چاہتے تھے تاکہ وہ اپنا ادھورا کام پورا کر سکے۔
افسوس 1948 ء سے ا ب تک یہ معاملہ اقوام متحدہ میں بار ہا اٹھایا جا چکا ہے بلکہ اس کو حل نہ ہونے والے سب سے دیرینہ تنازعے کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی کشمیر یوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار دیتی ہیں لیکن اقوام متحدہ اپنی ہی قرارداد پر عملدرآمد کرانے سے قاصر ہے۔بھارت کی مسلسل ایک ہی گردان ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے،یہ کیسااٹوٹ انگ ہے جس کا زخم ناسور بن چکا ہے لیکن وہ اس کا علاج نہیں کرنا چاہتا۔ہر سطح پر کشمیر کے حق میں اٹھائی جانے والی آواز کو وہ دبا دینا چاہتا ہے، جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم نواز شریف نے کشمیریوں کو ان کا حق دینے کی بات کی تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کو پاکستان اور بھارت کا داخلی معاملہ قرار دیا، پھرلائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اقوام متحدہ کے آبزرور گروپ کو وہ شملہ معاہدے کی رو سے’ غیر فعال‘مانتا ہے اور اس کی دخل اندازی کو پسند نہیں کرتا،کسی تیسرے فریق کی موجودگی میں بات چیت بھی اسے پسند نہیں لیکن جب لائن آف کنٹرول اور پاکستان کی ورکنگ باونڈری پر حملے کی بات آتی ہے تو اسی شملہ معاہدے کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے ،کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دینے پر قطعاً آمادہ نہیں ہے تو پھر اس دوغلے رویے سے معاملات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ملین مارچ سے کشمیریوں کا مطلوبہ مقصد تو حاصل ہو گیاکہ عالمی برادری کے سامنے وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے میں کامیاب ہوئے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جہاں صرف بھارت کے خلاف اور کشمیر کے حق میں نعرے فضا میں گونجنے چاہئیں تھے، وہاں بھی تحریک انصاف کے کارکنوں نے’ ملکی سیاست‘ کا رنگ دکھا دیا،اول تو انتظامیہ اگر پاکستانی سیاسی رہنماؤں کی شرکت کی خواہش مند تھی تو سب رہنماؤں کو دعوت دیتی ،صرف بلاول بھٹو کو مدعو کرنا مناسب نہیں تھا لیکن اگر بلاول بھٹو وہاں چلے بھی گئے تھے تو پھر تحریک انصاف کے کارکنان کو صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑناچاہئے تھا۔ یہ کوئی سیاسی جلسہ نہیں تھا، بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے دوران ’گو نواز گو ‘اورگو زرداری گو ‘جیسے نعرے بلند کرنے سے بظاہر تو یہی تاثرملتا ہے کہ اس طرح کشمیر کی آزادی کے لئے کی جانے والی جدوجہد کونقصان پہنچایا گیا۔ ہر احتجاج کی اپنی حدود و قیود ہوتی ہیں، موقع محل کی مناسبت سے کی جانے والی بات ہی اثر رکھتی ہے،ہماری سیاسی جماعتوں نے احتجاج کا کوئی نیا ہی طریقہ متعارف کرا دیا ہے جس کا استعمال ان کے کارکنان بلا سوچے سمجھے کرتے نظر آتے ہیں ، جو ہماری جگ ہنسائی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
بہر حال اس بدمزگی کے باوجودملین مارچ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی رائے کے مطابق حل کرنا نا گزیر ہو چکا ہے۔وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، نریندر مودی کا سخت موقف صرف اور صرف کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے گا جس کا خمیازہ پورے خطے کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔بھارت کو اپنا رویہ نرم کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دینا ہو گا،بھارت یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ کشمیر کی آزادی تک یہ جدوجہد اور تحریک جاری رہے گی، کشمیر کو وہ زبردستی اپنی جاگیر بنا کر نہیں رکھ سکتا ۔ فیصلے کاحق ہر صورت کشمیر میں رہنے والوں کو دینا پڑے گا، اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار کوئی ا ن سے نہیں چھین سکتا۔