مفت و لازمی تعلیم سکیورٹی کونسل اور حدبندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو دینے کا بل منظور

مفت و لازمی تعلیم سکیورٹی کونسل اور حدبندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو دینے ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                   لاہور( نمائندہ خصوصی )پنجاب اسمبلی نے لوکل گورنمنٹ کی حدبندیوں کے اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کرنے کا بل پاس کر دیا ہے۔ جبکہ پنجاب بھر میں 5 سے 16 سال کے بچوں کی لازمی تعلیم کا بل بھی پاس کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق پنجاب حکومت نے پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈی ننس 2014ئ(دوسری ترمیم) کے ذریعے لوکل گورنمنٹس کی حدبندیوں کے اختیارات الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تفویض کر دیئے ہیں۔ حکومت نے صرف میونسپل کارپوریشن‘ ضلع کونسل اور میونسپل کمیٹی کی باہروالی حدود کا تعین کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ میونسپل کارپوریشن‘ میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور اور ضلع کونسل کے اندر کتنی تعداد میں یونین کونسلیں ہوں گی۔ یونین کونسلوں کی حدبندی کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہو گا۔ اسی طرح سے گورنمنٹ میونسپل کمیٹی کے وارڈز کا تعین کرے گی جبکہ وارڈز کی حدبندی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہو گی۔ علاوہ ازیں ہریونین کونسل کے اندر 6وارڈز بنیں گے‘ جن کی حدبندی بھی الیکشن کمیشن کرے گا۔ اسی طرح لوکل گورنمنٹس الیکشن کے لئے ووٹرلسٹیں بھی الیکشن کمیشن مرتب کرے گا۔ اس کا اختیار بھی پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈی ننس 2014ء(دوسری ترمیم) کے ذریعے الیکشن کمیشن کو تفویض کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے بھی بذریعہ آرڈی ننس لوکل گورنمنٹ کی حدبندیوں اور ووٹرلسٹیں بنانے کا اختیار الیکشن کمیشن کو تفویض کر دیا ہے۔ 27اکتوبر کو پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والے پنجاب سٹریٹجک کوآرڈی نیشن بل 2014ءکے ذریعے ایک صوبائی سکیورٹی کونسل اور ایک پنجاب سٹریٹجک کوآرڈی نینش بورڈ بنایا جانا مقصود ہے۔ جس سے باقی معاملات کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں سب کی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس ادارتی ڈھانچے سے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو پنجاب میں بہتر طریقے سے کیا جا سکے گا۔ پنجاب فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن بل 2014ءبھی پنجاب اسمبلی میں پاس کر دیا گیا۔ جس کے مطابق آئین کے آرٹیکل 25-اے کے تحت ریاست نے بذریعہ قانون 5سے 16سال تک کی عمر کے ہر بچے کی لازمی تعلیم کو یقینی بنانا ہے۔ اس بنیادی حق کو یقینی بنانے کے لئے پنجاب فری اینڈکمپلسری ایجوکیشن بل کو ترتیب دیا گیا ہے۔ اس قانون کے ذریعے پنجاب کے ہر بچے کی لازمی تعلیم کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ اس بل میں پرائیویٹ سکولوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ ریاست کی اس ذمہ داری میں اپنا حصہ ڈالیں۔قبل ازیں ایوان میں پاس ہونے والے پنجاب اوورسیزپاکستانیز کمیشن بل 2014ءکے ذریعے بیرون ملک پاکستانیوں کی صوبائی محکموں اور اداروں سے متعلق شکایات کے ازالہ کے لئے کمیشن تشکیل دیا ہے جو انٹرنیٹ پر درخواستیں وصول کر کے‘ شکایات کے ازالے کے لئے متعلقہ محکمے کو کہے گا۔ ذخیرہ اندوزی کے خاتمے کے لئے تمام گوداموں اور کولڈ سٹوروں کی رجسٹریشن کے لئے پنجاب رجسٹریشن آف گڈون بل 2014ءبھی پاس کر لیا گیا ہے۔ ایوان میں پاس ہونے والے پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2014ء(بل نمبر 19 اور 20) کے ذریعے بکرمنڈیوں میں کسانوں پر عائد ہر طرح کی فیس معاف کر دی گئی ہے۔ بکرمنڈیوں کو جدید خطوط پر چلانے کے لئے ہر ڈویژن میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے اور حکومت اپنے وسائل سے چند بکرمنڈیاں بھی قائم کر ے گی۔

لاہور( نمائندہ خصوصی) پارلیمانی سیکریٹری برائے ایس اینڈ جی اے ڈی علی اصغر منڈا ایڈووکیٹ کو گزشتہ روز حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے تند وتیز سوالات کا سامنا کرنا پڑ گیا ،ارکان کی نوکر شاہی اور اس کی پالیسیوں پر کڑی تنقید،گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے حوالے سے حکومتی اور اپوزیشن ارکان شیخ علاو الدین، عائشہ جاوید، فائزہ ملک، حسن وقاص موکل،میاں نصیر، سردار شہاب الدین، اور دیگر کے ضمنی سوالات کے جواب میں پارلیمانی سیکریٹری نے ایوان کو بتایا کہ جی او آر میں سرکاری گھر مروجہ پالیسی کو مد نظر رکھ کے الاٹ کئے جاتے ہیں ،لاہور میں اب تک330سرکاری گھر ناجائز قابضین سے واگزار کرائے جا چکے ہیں، پنجاب میں پہلے سرکاری ملازمین کو گھر بنا کر دئیے جاتے تھے مگر بعد میں اس پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے پنجاب گورنمنٹ ہاوسنگ سرونٹس فاونڈیشن نے پلاٹ بھی ا لاٹ کرنا شروع کردئیے ہیں اور اب تک1731ملازمین کو یہ پلاٹ الاٹ ہو چکے ہیں،فاونڈیشن اب تک سینارٹی کو مد نظر رکھ کے بہت سارے ملازمین کو لاہور، فیصل آباد ارو ملتان میں گھر اور پلاٹ الاٹ کر چکی ہے جبکہ2018تک ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازین کے لئے پلاٹوں کی اراضی مختلف اضلاع میں ھاسل کر لی گئی ہے۔ سرکاری گھر انفارمر سکیم اور ہارڈ شپ کمیٹی کے تحت الاٹ کئے جاتے ہیں تاہم یہ گھر مجاز اتھارٹی آوٹ آف ٹرن الاٹ کر سکتی ہے ،انہوں نے بتایا کہ ریٹائر ہونے والا سرکاری ملازم 8ماہ تک گھر رکھ سکتا ہے جس کے بعد اس سے یہ گھر واگزار کرا لیا جاتا ہے،اسٹیٹ آفس میں تعینات کل35میں سے28ملازمین کو تبدیل کر دیا گیا ہے باقی 7کو بھی مناسب متبادل ملنے پرتبدیل کر دیا جائیگا،ایسے سرکاری افسران جو چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوتے انکو طبی بنیادوں پر بھی گھر الاٹ کئے جاتے ہیں جس پر شیخ علاو الدین نے کہا کہ یہ گھر انہیں نتھیا گلی یا مری میں کیوں الاٹ نہیں کئے جاتے تاکہ انکی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوں،جس پر پارلیمانی سیکرٰتری نے ایوان کو بتایا کہ اگر معزز رکن کسی خاص کیس کی نشاندہی کریں تو اس کی تحقیقات کرا لینگے ، پارلیمانی سیکریٹری نے عائشہ جاوید اور حسن وقاص موکل کے ضمنی سوالوں کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ اسٹیٹ مجسٹریٹ منظور احمد کی پرفارمنس بہت اچھی ہے جس کی وجہ سے انکی پوسٹ اپ گریڈ کر کے انہیں سپیشل مجسٹریٹ بنا دیا گیا ہے ا،نہیں آوٹ آف ٹرن گھر الاٹ کرنے کا نہیں بلکہ ناجائز قابضین سے سرکاری گھر خالی کرانے کا اختیار ہے جس پر حسن وقاص موکل نے کہا کہ اگر وہ اتنے ہی اچھے افسر ہیں تو انہیں ترقی دیکر چیف سیکریٹری لگا دینا چاہئیے، پارلیمانی سیکریٹری نے ایوان کو بتایا کہ قواعد وضوابط کے تحت سرکاری ملازم کسی بھی جگہ تین سال سے زائد تعینات نہیں رہ سکتا مگر اچھی کارکردگی اور عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے مزید وہاں رکھا جا سکتا ہے،اپوزیشن رکن فائزہ ملک نے شکایت کی کہ ارکان اسمبلی کے سوالات کے جوابات غلط دئیے جاتے ہیں جبکہ سردار شہاب الدین نے کہا کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ جوابات ایوان کی میز پر رکھ دئیے گئے ہیں تو انہیں وہاں موجود ہونا چاہئیے مگر ایسا ہوتا نہیں جس پر سپیکر نے کہا کہ جوابات معزز ارکان کو پوچھنے پر فراہم کر دئیے جاتے ہیں۔
منڈا

مزید :

صفحہ اول -