صرف ایک منٹ!

صرف ایک منٹ!
 صرف ایک منٹ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وقت کی جادو نگری کو اپنے اِذن سے تھامے رکھنے والا رب انسانوں کوجھنجوڑتا ہے، مگر بے خبر انسان خبردار نہیں ہوتے ۔ کیا دنیا کے کارخانے دائم غفلت کی کَل سے چلتے چلے آئے ہیں؟ ۔۔۔8اکتو بر2005ء کو اب دس برس اوپر اٹھار ہ دن بیتے ہیں۔ یہی ماہ تھا، کائنات کے رب نے اپنی ایک نشانی پوری کی ، تب دھرتی نے کروٹ بدلی تھی۔ رمضان المبارک کی تیسری تاریخ میں صرف چھ منٹ اور آٹھ سیکنڈ میں زمین ذراسی لرزش کی شکار ہوئی۔ اور زمین پر اِترا کر چلنے والے انسان آخری کتاب ہدایت کے الفاظ میں چیخ اُٹھے کہ ۔۔۔وَقَالَ الانسَانُ مَالَھَا(سورۃ الزِلزال۔۔۔آیت ، 3) ۔۔۔ (انسان کہنے لگے کہ اِسے (زمین کو ) کیا ہو گیا)


پاکستان میں28اکتوبر کو دوپہر دوبج کر نومنٹ پر ایک زلزلہ پھر آیا۔ اب اس کادورانیہ صرف ایک منٹ ہی تھا۔مگر پورا پاکستان اس سے لرز گیا۔نقصانات کا ابھی تک پوری طرح اندازا نہیں ہو پایا۔ اس زلزلے میں کتنی انسانی جانوں کو قزاقِ اجل اُچک کر لے گیا ، ابھی خبریں ہیں کہ مسلسل چلی آتی ہیں۔8 اکتوبر اور26 اکتوبر میں فرق کیا ہے؟ تب یہاں ایک ایسے شخص کی حکمرانی تھی جو امریکہ کی ہیبت میں دم بخود اور اپنی سرگرمیوں میں بیخود رہتا تھا۔ آخری کتابِ ہدا یت نے کوئی ابہام نہیں چھوڑا کہ زمین اپنے بھونچالوں میں کس کے حکم کی پیروی کرتی ہے؟ فرمایا کہ :’’اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کر دے گی۔ اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا‘‘۔۔۔ (آیات۔4 تا5)



مگر پرویز مشرف نے ٹیلی ویژن کی چکا چوند دُنیا میں اُبھرتے میزبانوں کو پیغام پہنچایا کہ خبر دار زلزلے کی مذہبی وجوہات کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا جائے۔ بے حس جرنیلی حکومت نے زلزلے سے مرنے والے انسانوں کے اصل اعدادوشمار تک چھپائے۔ عالمی امدادی اداروں کے مطابق اس عظیم انسانی المیے نے اندازاً 86ہزار انسانوں کی جانیں نگل لی تھیں ۔ آزاد اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی متجاوز تھی۔ یہ پہلو دراصل حکمرانوں کی اس سفاکی کو اجاگر کرتا ہے جو عبرت پکڑنے کے قیمتی اور دلسوز لمحات میں بھی اقتدار کے تقاضوں سے آلودہ رہتا ہے۔ دس برس اٹھارہ دن بعد پاکستان میں حکومت تو جمہوری ہے، مگر طرزِ حکومت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف اپنے امریکی دورے کے بعد برطانیہ میں قیام فرما تھے جب اُنہیں اس زلزلے کی اطلاع ملی اُنہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ خبر جاری کرنا ضروری سمجھا کہ وہ اپنا دورہ مختصر کرکے پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ برطانیہ میں ٹہرے ہوئے ہی کیوں تھے؟ کیا حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کے لئے کوئی معیار وضع کرنے کی ضرورت نہیں؟ کیا یہ تعین صرف وزیر خزانہ کے پاس ہو گا کہ وہ مسلم لیگ(ن) کے جماعتی اجلاسوں میں شرکت کرنے والے صدر اور وزیراعظم کے دوروں کے لئے سال بھر میں جتنی رقم مختص کر دیں بس اُسے صرف کرنے کے لئے یہ دورے کرتے پھریں۔ آخر یہ دورے مملکت کے شفاف مقاصد اور اہداف کے ساتھ یافت کے کسی اُصول سے منسلک کیوں نہیں؟
پھر بھی وزیراعظم کا بے حد شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اُنہوں نے اپنی رعایا سے کمال ترحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برطانیہ میں اپنے قیام کو مختصر فرمایا۔ اگرچہ مُلک سے باہر دیگر سیاسی رہنماؤں کے بارے میں قوم تاحال کچھ نہیں جانتی کہ وہ اقتدار ہاتھوں سے نکل جانے کے بعد مصیبت کے ان لمحات میں مُلک میں کیوں نہیں ہوتے؟ 8 اکتو بر کے زلزلے کے بعدتب آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار سکندر حیات نے کہا تھا کہ ’’مَیں ایک قبرستان کا حکمران بن چکا ہوں۔‘‘ جمہوری دور میں فرق یہ پڑتا ہے کہ انسانوں پر قبریں یا ’’ مُردے‘‘ حکومت کرتے ہیں۔ زلزلے کے بعد حکومت کی کارکردگی جانچنے کا لمحہ نہیں آیا؟ ابھی سوال زلزلے سے پہلے کا ہے۔پاکستان کرۂ ارض پر ایک ایسے قطعہ اراضی پر قائم ہے جہاں زلزلوں کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کوئٹہ میں 1935ء میں آنے والے زلزلے سے 50ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد شدت میں کم زیادہ بہت سے زلزلے یہاں آتے رہے ہیں۔3ستمبر اور4ستمبر کے بعد10 ستمبر1971ء کو آنے والے زلزلے نے سو سے زائد افراد کو اپنا شکار کیا تھا۔ صرف اسی سال چھ مرتبہ زلزلے آئے مگر 10ستمبر کا زلزلہ نقصان دہ ثابت ہوا تھا ۔ اسی طرح 1972ء میں دو ، 1973ء میں ایک اور 1974ء میں زلزلے کے تین واقعات ہوئے۔ جن میں28دسمبر کا زلزلہ تباہ کن ثابت ہوا۔ جس نے ہزارہ ،ہنزہ، سوات اور خیبر پی کے تقریباً پانچ ہزار انسانوں کو جھپٹ لیاتھا۔ پھر 1975ء میں دو ، 1978ء میں ایک،1995 میں ایک اور1997میں دوزلزلے آئے۔ جس میں سے28فروری کے زلزلے نے ایک سوا فراد کی جانیں لیں۔



2001ء کا ایک ، 2002ء کا ایک اور2004ء کا بھی ایک زلزلہ کم جانی نقصانات کے ساتھ ٹل گیا، مگر پھر 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے نے محتاط اعداد وشمار کے مطابق بھی کم ازکم 86ہزار جانیں نگل لیں۔اس زلزلے نے عظیم تر انسانی المیے کو جنم دیا ۔ ایسانہیں ہے کہ 8 اکتوبر کے بعد اب 26 اکتوبر تک ان دس برسوں میں یہ زمین زلزلے کے خطرے سے محفوظ رہی۔ اس دوران میں بھی زلزلے کے واقعات مسلسل رونما ہوتے رہے۔28 اکتوبر 2008ء کے زلزلے نے ایک سو ساٹھ افراد کو اپنا شکار بنایا۔ 2010ء میں بھی دوزلزلے آئے۔ 2011ء میں پانچ اور 2012ء میں بھی زلزلے کے چھ واقعات رونما ہوئے۔ اِسی طرح 2013ء میں زلزلے کے چار واقعات ہوئے، جن میں سے24ستمبر کے زلزلے میں 328 افراداپنی زندگیاں گنوا بیٹھے تھے۔ زلزلے کا یہ تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی سرزمین شق الارض کے مستقل خطرے سے دوچار ہے۔ جس کی تائید ماہرینِ ارضیات و موسمیات بھی کرتے ہیں۔ماضی میں پاکستان تب بھی زلزلوں کا شکار ہوا جب اُسے ماحولیات کے اُن خطرات کا سامنا بھی نہیں تھا جس سے وطنِ عزیز آج دوچار ہے۔ اب دُنیا بھر میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی بدلاؤ نے اس خطرے کو دوچند کر دیا ہے۔ پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اثرات پر فکر مند ہے، مگر پاکستان نے چپ کا روزہ رکھا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمیں اس دُنیا سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔


دُنیا بھر میں زلزلے اس سے کہیں زیادہ شدت سے واقع ہوتے ہیں، مگر باشعور قوموں نے اس سے نمٹنے کے لئے قبل ازوقت اقدامات پر توجہ دی ہے اور زلزلے کے بعد اپنے نقصانات کو کم سے کم سطح پر لے آئے ہیں، مگر پاکستان ایسی کسی بھی منصوبہ بندی سے محروم ہے۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ زلزلے کے بعد حکومت کیا کرتی ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ وہ زلزلے سے پہلے کیا کرتی ہے؟ کیا نوازشریف کی حکومت نے عمران خان کے طوفان سے بچنے کے لئے جتنی منصوبہ بندی کر رکھی ہے اُس کا دس فیصد بھی اُس نے زلزلے کے پیشگی اقدامات کی منصوبہ بندی پر صرف کئے ہیں۔ اس کو تو چھوڑیئے! حالیہ زلزلہ صرف ایک منٹ کے دورانیے پر محیط تھا ۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنے ڈھائی سالہ اقتدار میں ایک ہی منٹ کبھی زلزلے پر غور کے لئے کسی اجلاس میں گزارا ہے۔ صرف ایک منٹ!

مزید :

کالم -