صحت کارواں

تندرستی ایسی نعمت ہے جس کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں،صحت مندقوم ہی خوشحال معاشرے اور محفوظ مستقبل کی ضامن ہوتی ہے۔ اسی ضمانت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وزیراعظم قومی صحت پروگرام پوری تندہی کے ساتھ منزل بہ منزل کامیابی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نادار، مفلس اورغریب خاندانوں کو بہتر اور مفت طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے شاندارمنصوبے کا آغاز کیا گیا ہے۔
ماضی کی حکومتوں نے عوام کو صحت عامہ کی بہتر اور مفت سہولیات فراہم کرنے کے بجائے غریب مکاؤمہم جاری رکھی۔ 18ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں وزارت صحت صوبوں کے حوالے کر دی گئی لیکن وفاق اور صوبوں کے مابین اختلافات کے باعث شعبہ صحت زبوں حالی کا شکار ہو گیا، ہسپتالوں کی حالتِ زار ناقابل بیان ہو گئی،ڈاکٹروں کا ہسپتالوں میں موجود نہ ہونا،سینئرڈاکٹرز کا وارڈ میں نہ جانا، ادویات کی قلت و عدم دستیابی، ایکسرے، لیبارٹری ٹیسٹ ، سٹی ٹی سکین کا معقول انتظام نہ ہونا،ٹیسٹوں کیلئے لمبی تاریخیں،مہنگی ادویات، ایک ایک بستر پر کئی کئی مریض، بستر گندے، پھٹے پرانے اورکھٹملوں سے بھرپور، صفائی کا انتظام انتہائی ناقص ، وارڈوں میں چوہے، بلیوں اور حشرات الارض کی بھرمارتھی۔ صحت کیلئے مختص معمولی بجٹ حکمران اپنی عیاشیوں ، کرپشن ، سکیورٹی، بیرونی دوروں اور اللے تللوں پر اجاڑ دیا کرتے تھے۔ملک میں صورتحال اس قدر دگرگوں اور ناگفتہ بہ ہو گئی کہ اگر کوئی غریب بیمار ہوجاتا تو اسے اپنے علاج و معالجے کیلئے گھریلو اشیاء،جمع پونجی یہاں تک کہ اپنی جائیداداور زیورات تک بیچنا پڑ جاتے تھے، حکمرانوں نے موت سستی اور زندگی مہنگی کر دی۔
2013ء میں زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد میاں نواز شریف نے اپنی غریب دوست سوچ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے یورپی یونین اور امریکہ کی طرز پر تاریخی قومی صحت پروگرام کا اعلان کیا کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عوام کو بہتر اور معیاری علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم کئے بغیر صحت مند معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتاصحت مند اور خوشحال معاشرہ ہی ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔9ارب 10کروڑ کے وزیراعظم قومی صحت پروگرام سے یومیہ 200 روپے سے کم آمدن والے خاندان مستفید ہوں گے۔ 23 اضلاع کیلئے شروع کیے جانے والے اس پروگرام سے 32لاکھ غریب اور نادار خاندانوں کی زندگیوں کے دیپ روشن رہیں گے۔ پروگرام کے ابتدائی مرحلے میں 15اضلاع کے 12لاکھ گھرانوں کو ’’صحت کارڈز کا اجراء کیا جا رہا ہے۔غربت کے اندھیرے میں زندگی گزارنے والے فی خاندان کو 7پیچیدہ اور مہلک امراض اینجیو پلاسٹی، بائی پاس،ذیا بیطس، آگ سے جھلسنے،گردے،ہیپاٹائٹس، ایچ آئی وی، جگر اور کینسر کیلئے دو لاکھ 50ہزار روپے سالانہ فراہم کیے جائیں گے، مقررہ حد سے زیادہ اخراجات کی صورت میں بیت المال 3لاکھ کی اضافی رقم مہیا کرے گا جبکہ عمومی امراض جن میں بچوں ، زچگی ، سرجیکل اور دیگر بیماریاں شامل ہیں، کیلئے 50ہزار روپے سالانہ فی خاندان دیا جائے گا بوقت ضرورت یہ رقم ایک لاکھ روپے تک بڑھائی جائے گی۔صحت پروگرام کی روح رواں مریم نواز اور ان کی ٹیم کی انتھک محنت سے یہ پروگرام دنیا میں نہ صرف پاکستان کی پہچان بلکہ قابل تقلید مثال بن چکا ہے۔
غریبوں کیلئے دوررس نتائجکے حامل وزیراعظم قومی صحت پروگرام کا آغاز 31دسمبر 2015ء کو وفاقی دارالحکومت سے کیا گیا، چنانچہ اسلام آباد 14ہزار 480 صحت کارڈز جاری کیے گئے ۔پروگرام سے مستفید ہونے والے تین خاندانوں میں بچوں کی ولادت ہوئی جن میں ایک بچی کا نام مریم رکھا گیا۔اس کے بعد آزاد کشمیر کا رخ کیا گیا جہاں مظفر آباد میں 82ہزار362 اور کوٹلی میں 79ہزار چار غریب خاندانوں کو مفت صحت کی سہولیات میسرآرہی ہیں۔ محرومیوں اور مایوسیوں کے شکار صوبہ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ میں 76000 خاندانوں کو ہیلتھ کارڈزکا اجرا کیا گیا۔اگست2016 سے وزیراعظم قومی صحت پروگرام کے ذریعے گلگت بلتستان کے ضلع سکردو، کھرمنگ اور شگر کے 28ہزار 400 خاندانوں کو علاج کی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد، آزاد کشمیر، بلوچستان، گلگت بلتستان کے 3لاکھ 38ہزار سے زائد مستحق خاندانوں کی زندگیوں میں امید کے دیپ جلانے کے بعد صوبہ پنجاب کے پسماندہ ضلع رحیم یارخان کا رخ کیا گیا ۔عوام کیلئے درد دل رکھنے والے وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی صحت پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ 10، 10سال تک اپنا علاج نہیں کرا سکتے تھے، میں نے علاج کیلئے لوگوں کی جائیدادیں فروخت ہوتی دیکھی ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے رحیم یا ر خان کے 5لاکھ3ہزار سے زائد خاندانوں کے زخموں پر صحت کارڈزکے ذریعے مرہم رکھاجا رہا ہے۔
10ماہ قبل شروع ہونے والے وزیراعظم قومی صحت پروگرام کے تحت علاج کی سکت نہ رکھنے والے ایک ہزار 533مریضوں کے اوپن ہارٹ بائی پاس، انجیو گرافی، انجیو پلاسٹی، سٹ نٹنگ، ڈائیلاسز اور کینسر کے آپریشن کرائے جا چکے ہیں۔ اگر مہلک اور جان لیوا بیماریوں کی بات کی جائے تو اس میں امراض قلب میں مبتلا 30 افراد کے اوپن ہارٹ بائی پاس، 73 کی انجیو گرافی اور 52 کی انجیو پلاسٹی وسٹ نٹنگ ،کینسر میں مبتلا 88 افرادجبکہ 210 کی ڈائیلاسز کرائی گئی ہے۔ معمولی امراض کے اب تک 260 خواتین کی نارمل ڈلیوری اور 201 کی سی سیکشن ڈلیوری بھی کرائی گئی ہے۔ 185افراد کے کولیسس ٹیکٹومی، 145 افراد کی ہرنیو پلاسٹی، 131کی اپنڈ کٹومی، 76 افراد کی کیٹرکٹ آئی جبکہ 82 افراد کی ہسٹرکٹومی کی جا چکی ہے۔
گذشتہ حکومتوں نے صحت کے شعبے کو مشترکہ عوامی فلاح سمجھنے کے بجائے کاروبار سمجھ رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ صحت کی سہولیات غریبوں کیلئے ناپید ہو کر رہ گئیں۔ وزیراعظم کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے منشور میں کئے گئے ایک اور وعدے کو حقیقت کا روپ دینے اور دستور میں تفویض کردہ عوامی خدمت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کیلئے بین الاقوامی طر ز کے جدیدترین سہولتوں سے آراستہ ملک بھر میں 50ہسپتال 2018تک تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے ، ہسپتالوں کی تعمیر ملک بھر کے غریب عوام کو مفت اور بہترین طبی سہولیات دینے کے لئے وزیر اعظم کے ویژن کا حصہ ہے۔اعلان کردہ ہسپتالوں میں اسلام آباد میں 3، پنجاب میں 500 بستروں پر مشتمل 5 اور 250 بستروں کے7 ہسپتال، بلوچستان میں 500 بستروں کا ایک ،250 بستروں کے 3اور100 بستروں کے 4 ہسپتال، خیبر پختونخوا میں 500بستروں کے 2‘ 250 بستروں کے 4 اور 100 بستروں کے 2 ہسپتال‘ سندھ میں 500اور 250 بستروں کے 3، تین، گلگت بلتستان میں 250 بستروں کے دو، 100 اور ایک 50 بستر کا ہسپتال جبکہ آزاد کشمیر میں 250 بستروں کا ایک ،100بستر کے 3 اور 50 بستروں کا ایک ہسپتال و دیگر تعمیر کیے جائیں گے۔ تمام ہسپتالوں کی تعمیر کے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کریگی،ان ہسپتالوں کی تعمیر کے بعد ملک بھر میں موجود ہسپتالوں سسٹم میں تقریباً 13400 بستروں کااضافہ ہو جائے گا۔
گذشتہ دور حکومت میں بھی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے غریب عوام کے دکھوں، غموں اور تکلیفوں کا مداوا کرنے کیلئے گردوں کے علاج پر خصوصی مہم چلائی اورپورے ملک میں ڈائیلاسز پروگرام کو پھیلایا گیا تھا۔لیکن جیسے ہی آمر نے جمہوریت پروار کیا توعوامی فلاح و بہبود کیلئے جاری ترقیاتی پروگرام ختم کر دیئے گئے ۔ جبکہ اب بھی وزیراعظم تاریخ ساز ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھ چکے ہیں، تعمیر و ترقی کا کام جاری ہے، ملک خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے تو چند ذہنی بیمار سیاستدان رکاوٹیں کھڑی کر کے چور دروازے سے شیروانی زیب تن کرنے کیلئے کوشاں ہیں جو نہ صرف ملک بلکہ عوام کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو گا۔