انسانی اسمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 2

انسانی اسمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 2
انسانی اسمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 2

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نقل مکانی
نقل مکانی کا مفہوم ہے مستقل طور پر یا لمبے عرصے کے لئے رہائش کی تبدیلی۔ لمبے عرصے سے مراد ایک سال کی مدت ہے۔ بسا اوقات ایک سال سے کم مدت بھی قابل قبول ہوتی ہے۔ نقل مکانی میں ایک سے دوسرے ملک ہجرت بھی شامل ہے اور اندرون ملک ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل ہونا بھی۔ ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرنا بین الاقوامی یا بین الممالک نقل مکانی ہے۔ اسے ترک وطن بھی کہتے ہیں۔ اندرون ملک رہائش کا تبدیل کرنا داخلی یا درون ملک نقل مکانی ہے۔ داخلی نقل مکانی بین الخطہ بھی ہو سکتی ہے اور درون خطہ بھی ۔ بین الخطہ اور درون خطہ میں تفریق کے لئے ایک ملک کی ایسی انتظامی یونٹ کا انتخاب کرتے ہیں جو نہ بہت بڑی ہو اور نہ بہت چھوٹی۔ مثلاً پاکستان میں ضلع (ڈسٹرکٹ) ایسی انتظامی اکائی ہے جو نہ صوبے کی طرح بڑی ہے اور نہ تحصیل اور تعلقہ کی طرح چھوٹی۔ ایک ضلع کے حدود کے اندر نقل سکونت کو درون خطہ نقل مکانی کہیں گے اور ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں منتقل ہونے کو بین الخطہ نقل مکانی کہیں گے ۔
درون خطہ اور بین الخطہ نقل مکانی دیہات سے شہر، شہر سے دیہات، شہر سے شہر اور دیہات سے دیہات کی طرف کی جا سکتی ہے۔ ان کے علاوہ ایک شہر کے اندر یا ایک گاؤں کے اندر رہائش کی منتقلی ممکن ہے۔ رہائش کی ایسی منتقلی کو نقل مکانی تصور کرنے میں ماہرین میں اختلاف ہے۔ بعض اسے درون شہر نقل سکونت کہتے ہیں اور بعض اسے درون شہر نقل مکانی کہتے ہیں۔ درون شہر نقل سکونت پر بہت کام کیا گیا ہے اور لٹریچر کا ایک ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔ لیکن گاؤں کے اندر نقل سکونت کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔

انسانی اسمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 1پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
موسمی ہنکاؤ اور خانہ بدوشی کو بھی نقل مکانی تصور کرنے میں اختلاف ہے۔ موسمی ہنکاؤ میں ایک جماعت ایک موسم میں ایک جگہ اور دوسرے موسم میں دوسری جگہ رہتی ہے۔ ان جگہوں کا پہلے سے تعین ہوتا ہے مثلاً بلوچستان کے کچھ قبائل گرمی کے موسم میں قلات میں رہتے ہیں۔ سردی کے موسم میں بلوچستان کے گرم علاقوں یا سندھ میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ موسم سرما کے لئے ان کی یہ جگہ مخصوص ہے۔ وہ قلات کو اپنی مستقل رہائش گاہ سمجھتے ہیں۔ چترال میں بھی موسمی ہنکاؤ کرنے والے موجود ہیں۔ افغانستان کے بعض قبائل موسم سرما میں پاکستان آتے ہیں اور جب گرمی شروع ہوتی ہے افغانستان واپس چلے جاتے ہیں۔ خانہ بدوشی یہ ہے کہ نقل سکونت کے لئے ان کی جگہ مخصوص نہ ہو۔ عام طور پر وہ مویشی کے ریوڑ کے ساتھ ایسی جگہ منتقل ہوتے ہیں جہاں چراہ گاہ موجود ہو۔ کہا جاتا ہے کہ خانہ بدوش، بادل کے تعاقب میں رہتے ہیں جہاں بارش کی اطلاع ملی وہاں پہنچ گئے۔ خانہ بدوشی ریگستان میں عام ہے۔ وسطی ایشیاء، عرب اور افریقہ کے ریگستانوں میں خانہ بدوش پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں خاران کے ریگستان میں خانہ بدوشی کی جاتی ہے۔ لیکن خانہ بدوش بھی کسی نہ کسی مقام کو اپنا گھر سمجھتے ہیں وہاں ان کا مکان ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس زمینیں بھی ہوتی ہیں اور باغات بھی۔ ان زمینوں پر کاشتکاری اور باغات کی دیکھ بھال دوسرے افراد کے حوالے ہوتی ہے۔
اس طرح کی نقل مکانی کی بہت ساری قسمیں ہیں۔
1۔ بین الاقوامی نقل مکانی یا نقل وطن۔
ایک ملک سے دوسرے ملک میں نقل مکانی ہے (فوج کشی نقل مکانی نہیں ہے)۔
2۔ داخلی یا درون ملک نقل مکانی
الف۔ داخلی نقل مکانی ایک ضلع سے دوسرے ضلع یا ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں دیہات سے شہر، دیہات سے دیہات، شہر سے دیہات یا شہر سے شہر نقل مکانی ہوتی ہے ۔
ب۔ بین الاضلعی نقل مکانی
ایک ہی ضلع کے دیہات سے شہر، دیہات سے دیہات، شہر سے دیہات یا شہر سے شہر نقل مکانی۔
ج۔ ایک ہی شہر کے اندر نقل سکونت
3۔ موسمی ہنکاؤ
یہ موسمی نقل مکانی ہے جو بین الممالک بھی ہو سکتی ہے اور بین الخطہ بھی۔
4۔ خانہ بدوشی
یہ نقل مکانی بین الممالک بھی ہو سکتی ہے اور بین الخطہ بھی۔
نقل مکانی کے اسباب
انسان کو اپنے گھر، شہر، گاؤں اور وطن سے محبت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اسے کبھی اپنا شہر اور گاؤں چھوڑنا پڑتا ہے اور کبھی اپنا وطن بھی۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان وجوہ کو یکجا کر کے راوینسٹین نے 1885ء میں نقل مکانی کے قوانین مرتب کیے۔ راوینسٹین کی پیش کردہ وجوہ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا۔ شماریاتی ماڈل ترتیب دیئے گئے ، نفسیاتی محرکات کا تجزیہ کیا گیااور نئے انداز میں نقل مکانی کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی۔ لیکن راوینسٹین کے بنیادی خیالات آج بھی اہم اور قابل ذکر ہیں۔ راوینسٹین کے مطابق نقل مکانی کے تین عوامل ہیں
۱۔ پرکشش یا ناسازگار حالات
۲۔ نامناسب یا سازگار حالات
۳۔ نقل مکانی میں حائل عوامل
سازگار اور ناسازگار حالات
نقل مکانی ایک جگہ سے دوسری جگہ کی جاتی ہے۔ دونوں جگہوں پر سازگار اور کچھ ناسازگار حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ اپنے گھر، گاؤں اور شہر میں بذات خود ایک کشش ہوتی ہے۔ وہاں کے حالات اور وہاں کے رہنے والے جانے پہچانے ہوتے ہیں۔ وہاں رشتہ دار اور احباب رہتے ہیں۔ وہاں کی سماجی زندگی سے آشنائی ہوتی ہے۔ وہاں سے روزی حاصل ہوتی ہے۔ یہ تمام باتیں نقل مکانی سے روکتی ہیں۔ لیکن کچھ حالات نقل مکانی پر اکساتے ہیں۔ اپنے گاؤں شہر یا وطن کی معاشی حالت خراب اور بے روزگاری عام ہو جائے تو نقل مکانی کی خواہش اور ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یا فنی مہارت حاصل کرنے کے بعد اپنے گاؤں یا شہر میں مناسب روزگار حاصل کرنا دشوار ہو جاتا ہے اور نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ مذہب، نسل اور زبان کی بنیاد پر امتیازی سلوک نقل مکانی کا موجب بنتا ہے۔ اگر تعصب اس حد تک بڑھ جائے کہ جان، مال اور عزت کو خطرہ لاحق ہو تو نقل مکانی کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اگر تعصب ملک کے کسی خاص حصے میں پایا جاتا ہو تو لوگ درون ملک کسی دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں اور اگر پورے ملک کی یہی کیفیت ہو تو نقل وطن کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایسی جگہ کی تلاش شروع ہوتی ہے جہاں نقل مکانی ممکن ہے۔ نئی جگہ کا ماحول الگ ہو سکتا ہے۔ وہاں کی زبان مختلف ہو سکتی ہے، وہاں کا رہن سہن اور سماجی زندگی جدا ہو سکتی ہے۔ اس لئے یہ اندازہ کرنا پڑتا ہے کہ نئی جگہ میں زندگی گزارنا ممکن ہو سکے گا کہ نہیں۔ روزگار کے مواقع کا بھی جائزہ لینا پڑتا ہے۔ اس طرح دونوں مقامات کے مثبت اور منفی کیفیات کے جائزہ کے بعد نقل مکانی کے حق یا اس کی مخالفت میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ فیصلے میں نفسیاتی عوامل کا کافی دخل ہوتا ہے۔ بعض افراد انجانی جگہ سے خوف محسوس کرتے ہیں، بعض افراد نئی جگہ جانے کا شوق رکھتے ہیں۔ بسا اوقات نئی جگہ دور سے بہت پرکشش لگتی ہے لیکن وہاں پہنچنے کے بعد ان کو وہاں کے مسائل کا ادراک ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے تارکین وطن آج مغربی ممالک میں ان مسائل سے دوچار ہیں۔
نقل مکانی میں حائل عوامل
نقل مکانی کا فیصلہ کرنے کے بعد بسا اوقات اس پر عمل کرنے میں دشواریاں حائل ہو جاتی ہیں۔ تارکین وطن کے داخلہ پر ہر ملک میں طرح طرح کی پابندیاں ہیں۔ پاسپورٹ اور ویزا کا حصول دشوار ہوتا ہے۔ بعض ممالک مستقل آباد ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ جن ممالک میں داخلے کی اجازت ہے وہاں شرائط سخت ہیں۔ انہیں پورا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں اخراجات ہوتے ہیں فاصلہ زیادہ ہو یا افراد خانہ کی تعداد زیادہ ہو تو اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات نقل مکانی کی خواہشمند فیملی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے اور اپنا ارادہ ترک کر دینا پڑتا ہے۔ زیادہ عمر، گرتی ہوئی صحت، قریبی رشتہ داروں کی مزاحمت وغیرہ نقل مکانی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
آبادی پر نقل مکانی کے اثرات۔
نقل مکانی کے اثرات آبادی، معیشت اور معاشرے پر پڑتے ہیں۔ اگر ہجرت بڑی تعداد میں ہو تو جس ملک سے نقل مکانی ہوتی ہے وہاں کی آبادی پر وقتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جہاں نقل مکانی کی جاتی ہے وہاں پائیدار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک یورپ سے کثیر تعداد میں نقل مکانی ہوئی۔ نتیجے میں وقتی طور پر یورپ کی آبادی کم ہو گئی۔ نقل مکانی کے سیلاب کا زور جیسے ہی ٹوٹا فطری افزائش نے آبادی کی کمی پوری کر دی اور آج یورپ پہلے سے زیادہ آباد ہے۔ نقل وطن کرنے والوں نے یورپ کی آبادی پر کوئی دائمی اثر نہیں چھوڑا لیکن ان لوگوں نے تین براعظموں، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ اور اوشنیا (آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ) کو آباد کر دیا۔ چین سے بھاری تعداد میں جنوب مشرقی ایشیا میں نقل مکانی ہوئی۔ چین کی آبادی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا لیکن آج کمبوڈیا کی 30 ، ملائشیاء کی 34 اور سنگاپور کی 98 فیصد آبادی چینی ہے۔
درون ملک نقل مکانی۔
درون ملک نقل مکانی کے اثرات مختلف ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعدیورپ میں دیہات سے شہر میں بڑی تعداد میں نقل مکانی ہونے لگی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دیہاتوں کی آبادی کم ہونے لگی اور شہروں کی آبادی بڑھنے لگی۔ آج مغربی یورپ میں شہروں میں آبادی کا تناسب 70 فیصد سے کم ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی دیہاتوں سے شہروں میں نقل مکانی نے زور پکڑ لیا ہے۔ شہری آبادی کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لیکن اکثر ممالک میں دیہاتوں کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے لیکن یہاں آبادی بڑھنے کی رفتار شہروں کے مقابلے میں کم ہے۔ پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ دنوں بعد نقل مکانی کے سبب دیہاتوں کی آبادی کم ہونے لگے۔
جوان مرد
نقل مکانی کے اثرات صنف اور عمر پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے افراد عام طور پر جوان مرد ہوتے ہیں ۔ایک نئی جگہ منتقل ہونا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے جس کے لئے توانائی، تکلیف برداشت کرنے کی قوت اور نامساعد حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ اس لئے مضبوط، باہمت جوان نقل مکانی کرنے والے قافلے کا ہر اول دستہ بنتے ہیں۔ نئی جگہ پہنچ کر آمدنی کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ رہائش کا انتظام کرتے ہیں۔ اس کے بعد دیگر افراد خانہ کو لاتے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد دیہات سے شہر کی طرف نقل مکانی میں یہی ہوا جبکہ آج ترقی پذیر ممالک میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپ سے امریکہ نقل وطن میں بھی یہی ہوا۔ آج مشرقی وسطیٰ میں یہی ہو رہا ہے اس لئے نئے ہجرت کنندوں میں جوان مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب عام ہجرت شروع ہو جاتی ہے یا نقل مکانی میں کمی آ جاتی ہے تو یہ فرق کم ہو جاتا ہے اور مختلف عمر کے مردوں اور عورتوں کے تناسب میں توازن پیدا ہو جاتا ہے۔
ترقی پذیراور ترقی یافتہ ممالک میں د رون ملک نقل مکانی
درون ملک نقل مکانی میں آج مغربی ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں فرق ہے۔ یورپ اور امریکہ میں خوشحالی ہے۔ امن و امان ہے۔ عورتوں کے لئے روزگار کے مواقع موجود ہیں۔ اس لئے آج بڑی تعداد میں عورتیں گاؤں سے شہر کی طرف نقل مکانی کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس ترقی پذیر ملکوں میں نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر جوان مرد ہیں۔ اس لئے خصوصاً بڑے شہروں میں جواں سال مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
غیر معمولی حالات
عام حالات میں نقل مکانی کی جائے تو عمر اور صنف کا لحاظ رکھا جاتا ہے لیکن غیر معمولی حالات میں اگر نقل مکانی کرنی پڑے تو کچھ اور کیفیت ہوتی ہے اگر مذہبی، لسانی اور نسلی تشدد کی وجہ سے جان مال اور عزت کو خطرہ ہو تو بچے، بوڑھے، جوان، عورت اور مرد ایک ساتھ ہجرت کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں عورتوں، کمزوروں اور ضعیفوں کو نقل مکانی کا موقع پہلے دیا جاتا ہے۔
معیشت پر نقل مکانی کے اثرات
عام طور پر معیشت پر نقل مکانی کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔تارکین وطن جفاکش ہوتے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد تعلیم یافتہ اور فنی مہارت سے آراستہ ہوتی ہے۔ یورپ کے تارکین وطن نے شمال امریکہ، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو صرف آباد ہی نہیں کیا بلکہ معاشی ترقی سے بھی ہمکنار کیا ہے۔ چین ا ور برصغیر پاک و ہند کے تارکین وطن نے جنوب مشرقی ایشیا کی معاشی ترقی میں بھرپور حصہ لیا۔ اسی طرح یورپ اور ایشیا کے تارکین نے افریقہ کی ترقی میں بے مثال رول ادا کیا۔ مشرق وسطیٰ میں معاشی ترقی بہت حد تک ان کی مرہون منت ہے۔ ملک کی صنعت، سڑک، ریل، بجلی گھر، نیز نئی زرعی زمینوں کی آباد کاری اور دیگر معاشی شعبوں کی ترقی میں ملک کے مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔
نقل مکانی کرنے والے کبھی کبھی معیشت پر بوجھ بھی بن جاتے ہیں۔ کسی ملک میں اگر بڑی تعداد میں پناہ گزین آ جائیں تو وقتی طور پر معیشت پر بوجھ پڑتا ہے۔ ان کی آباد کاری میں وقت لگتا ہے۔ آج کل ترقی پذیر ممالک میں بے روزگاری عام ہے۔ دیہی علاقوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ بیروزگار افراد بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں پہلے سے موجود بیروزگاروں کے لئے مناسب روزگار فراہم کرنا مشکل ہے۔ نتیجے میں بھیک مانگنے والوں ،بے روزگاروں، کم اجرت پر کام کرنے والوں اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔
معاشرے پر نقل مکانی کے اثرات
شروع میں تارکین وطن کو عام طور پر نئے ملک میں خوش آمدید کہا جاتا ہے لیکن تھوڑے دنوں بعد ان میں اور مقامی باشندوں میں تناؤ شروع ہو جاتا ہے۔ اس تناؤ کی بنیاد زبان، نسل، مذہب، رہن سہن اور اقدار میں فرق ہوتا ہے۔ اس تناؤ میں مزید اضافہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب روزگار کے حصول میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اگر ملک کی معاشی حالت اچھی نہ ہو تو کشیدگی شدت اختیار کر لیتی ہے۔ ایک دوسرے کی جان اور مال پر حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ تصادم کا دور کہلاتا ہے۔ جس ملک یا علاقہ میں تصادم ہو رہا ہو وہاں معیشت خراب ہونے لگتی ہے اورتصادم اذیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ متحارب جماعتیں جتنی جلدی ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کر کے بقائے باہمی پر عمل پیرا ہو جائیں بہتر ہوتا ہے۔ اس کے بعد انضمام کا دور آتا ہے۔ انفرادی طور پر یہ تمام عوامل ایک ساتھ شروع ہو جاتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر اس میں وقت لگتا ہے۔

(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)