اپنوں سے تنگ مخالف  کا ستایا

اپنوں سے تنگ مخالف  کا ستایا
اپنوں سے تنگ مخالف  کا ستایا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس عنوان کو میں کس کے نام کروں – عوام کے نام کروں – پاکستان کے نام یا پھر وزیراعظم صاحب کے نام- ہر جگہ پہ مناسب طور پہ فٹ آنے والا یہ عنوان ہی آج کا المیہ ہے- عوام کی بات کروں تو جن کو حاکم بنا کے لائے تھے آج ان کے ہاتھوں مہنگائی میں پس رہے ہیں- پاکستان   کے ان حالات نے متوسط طبقہ کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے- بوجھ اٹھاتے تھکا یہ طبقہ اپنی سفید پوشی کے ہاتھوں  اپنوں سے یوں تنگ ہے کہ اپنے ہی اسے مخالف بھی دکھتے ہیں- پاکستان کی بات کروں تو اس کے اپنے آپس میں یوں دست و گریبان ہیں  کہ اس کی سلامتی خطرے میں ڈالنے سے بھی نہیں چونک رہے- جہاں غیر اسے ایک نیوکلئیر اسٹیٹ ہونے کی سزا دے رہا ہے تو وہاں پہ لوٹ مار کرنے والے اس کی معیشت پہ یوں وار کر گئے ہیں کہ یہ وطن اپنے قرض کے بوجھ میں  یوں دبتا دکھائی دے رہا ہے کہ قرضہ ایک خوشخبری ہے-

میں جانتا ہوں بھوکا پیٹ کب جانتا ہے کہ اس میں جانے والا نوالا کہاں سے آیا ہے اس کی کھلی باچھیں تو اس کی اُ س بھوک کی ترجمان ہیں  جس نے اس سے زندگی کی رمق چھین لینے کا ہی تہیہ کیا ہوا تھا – کس نے پہنچایا پاکستان کو اس مقام پہ  اب تو یہ سوچنا بھی محال لگتا ہے کہ جس طرف بھی انگلی اٹھتی ہے وہاں پاکستان کی وفاداری کے دعواے دار ہی نظر آتے ہیں- وزیراعظم صاحب کی بات کروں  تو ان کے ساتھ کھڑے لوگ بھی اسی  لوٹ مار کا حصہ ہیں جس نے اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کی ہیں اور روز وزیر اعظم صاحب ان کی وجہ سے  اپنے مخالفین کی تند و ترش سنتے ہیں- خان صاحب کو اپنے تو کیا بیگانے بھی  ایماندار کہنے سے  نہیں گھبراتے لیکن ان کی کابینہ پہ جب حرف آتے ہیں  تو بسیار کوشش بھی  وہ ان کا موثر جواب دینے سے قاصر ہیں-

میں تو کہتا ہوں کہ پاکستان شاید لوٹ مار کرنے والوں کی وہ پسندیدہ دھرتی ہے کہ  جہاں ناجائز پیسے میں قتل کے مجرمان پھانسی گھاٹ کی بجائے وی آئی پی کمروں میں موسم کی سختی سے محفوظ دنیا کے حالات سے  با خبر ٹیلیویژن سیٹ کے سامنے سے اٹھتے اپنے حقوق کی باتیں کرتے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ  سے  احتجاج کرتے  ہوئے  مخاطب ہوتے ہیں -دی گئی سزا اور اپنے عمل پہ ندامت بھی محسوس نہیں کرتے تو میں کیا کہوں  کہ  ملکی قانون  بھی تنگ ہے اور ان امراء کا ستایا ہوا ہے- امراء کی بات ہو تو  دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جب شوگر ملوں اور بیسیوں دوسرے کارخانوں کے مالک  اپنی حاکموں سے دوستی کی بنا پر اربوں کی سبسڈی پاتے ہیں –  جس چینی کو گروی رکھتے ہیں اسی سے اربوں کماتے ہیں -ملکی بنک انہیں یوں ادھار بھی دیتے ہیں کہ جیسے حکم ِحاکم کے سامنے انکار کی جرات نہ ہو کہ موصوف  بڑے صاحب کے دوست ہیں یا شاید صاحب ہی  وہ اصل  مالک ہیں جن سے حقِ دوستی نبھاہتے ہوئے  وہ مالک بنے بیٹھے ان کی دولت کو تحفظ  اور دوام بخش رہے ہیں-

کہتے ہیں کہ  مخالفت ایسی نہ ہو کہ گھر ہی جل جائے – ابھی  کل  کی بات ہے ایک آنے والا جہاز اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے- وہ آیا یا نہیں آیا ،سوال یہ نہیں ہے سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ جہاز ہمارے ملکی مسائل ، غربت ، بے روزگاری اور  ناچتی بھوک کا ذمہ دار ہے  یا ہم نے خود اس  ملک کو لوٹ کھسوٹ کے ادھ مواء کیا  ہوا ہے- اس ملک میں تلور کے شکاری آئے – بلیک واٹر آئی – ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل آئے – سڑکوں پہ نشے میں دھت کھلی موت بیچنے والے آئے اور چلے گئے لیکن یہ شور یہ غوغا کہیں نہیں تھا کہ کیوں آئے – کون لایا – کہاں گئے پَرآج یہ عالم ہے کہ  ملکی ادارے نفی کر رہے ہیں اور  ہم سیاست چمکا رہے ہیں – سب اس  کو یوں ہوا دے رہے ہیں کہ  شاید اسی معاملہ میں ملک دو ایسے گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے کہ حب الواطنی ایک جہاز کے آنے  یا نہ آنے سے ہی  منسوب  پائے -   زبان سے ایسے تازیانے اور زبان کے نشتر چلائے جائیں کہ اپنوں سے تنگ اور مخالفین کا ستا یا ان کے سامنے گھٹنے  ٹیک دے جو اس سٹیٹس کو کے خلاف ہے-

اسرائیل کے نتین یاہو نے  سلطنت عمان کا خفیہ دورہ کیا – یہ دورہ بیس سال بعد کسی اسرائیلی سربراہ کا پہلا  دورہ تھا جو عمان کے شاہ  قابوس  سے ملنے آئے اور ان کے دورے کو بہت خفیہ رکھا گیا کہ جب تک وہ دوبارہ اسرائیل نہیں پہنچ گئے- نیتن یاہو کے ساتھ ان کی اہلیہ سارا یاہو بھی تھیں- دونوں ممالک میں  سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن پھر بھی نیتن یاہو آئے اور اپنے دورے کو بہت کامیاب کہا کہ جس میں  وطن واپس پہنچنے پر ان کے عرب ممالک سے اپنے تعلقات کی بہتری  کا عندیہ دیا گیا ہے – نہ عمان میں ہلچل مچی اور نہ ہی عرب ممالک میں اس کا شور اٹھا - فلسطینی صدر  محمود عباس نے بھی تو   اسی ہفتے عمان کا دورہ کیا تھا – ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ عمان جس کے 2000ء سے مسئلہ فلسطین کو لے کر  کوئی تعلقات نہیں تھے اس لئے اس دورے کو بہت  معنی خیز انداز میں دیکھا جا رہا ہے- خطے کی صورتِ حال تیزی   تبدیل ہو رہی ہے -دوست بدل رہے ہیں – دوستی کے بلاکس بدل رہے ہیں جن کو حکومتیں بہت قریب سے دیکھ رہی ہیں – لیکن ہمارے تو گھر گھر میں خارجی تعلقات کا ماہر بیٹھا ہوا ہے جسے اپنے گھر کے معاملات کا تو پتہ نہیں لیکن ملکی خارجہ پایسی پہ بدرجہ اتم  ملکہ حاصل ہے  گو وہ نہیں جانتا کہ حکومت پہ اعتماد  اور ان پہ اس قسم کا بے جا دباؤ ضروری نہیں ہے- پاکستان میں ہم ہر وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو ہمارا نہ ہو- کھانا پکاتے ہوئے ہم باورچی- گاڑی ٹھیک کرواتے ہم  مکینک اور  علاج کرواتے وقت ہم ڈاکٹر کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ اسے کیا کرنا چاہیئے -  ہم آج بھی فلسطین  اور اسرائیلی جنگ میں  فلسطین کے ساتھ  ہیں –  ہمارا موقف آج  بھی اپنے  فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اسی ہمدردی  اور بھائی چارے کا ہے جو کل تھا – ایسے میں جن کا یہ کام ہے انہیں کرنے دیں – ملک ایک مشکل دور سے گذر رہا ہے – اپنوں سے تنگ اور مخالفین  کی ستائے وزیر اعظم کو پاکستان کے لئے کام کرنے دیں – ہمیں اپنے پاکستان  اور اپنے بچوں کا کل دیکھنا ہے اور بے جا ، غیر ضروری اور غلط پراپیگنڈہ  ہمارے پاکستان کی راہوں کو کھوٹا کر رہا ہے- ایک پاکستانی کے اپنی ذمہ داریاں بدرجہ احسن نبھائیں اور مل جل کر  ایک فلاحی پاکستان کے خواب کو شرمندہء تعبیر کریں  ۔

۔۔

یہ بلاگرز کا ذاتی نقطہ نظرہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔                                                                                                 

 ہ   

مزید :

بلاگ -