”اللہ بھلا کرے مولانا فضل الرحمان کا “
مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں جے یو آئی کا آزادی مارچ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حمایت کے پرچم تلے پڑاﺅپرپڑاﺅ مارتاہوا سندھ سے اسلام آباد کی طرف رواں دوا ں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں مولانا فضل الرحمان کو سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی مکمل سپورٹ حاصل ہونے کی وجہ سے اس وقت آزادی مارچ کے شرکاءکی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن 27اکتوبر سے مارچ کے آغاز اور اسی روز شب تک رہبر کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی کوششوں سے ہونیوالے معاہدے سے متعلق جے یوآئی کی جانب سے جس طرح بار بار موقف تبدیل کیاجاتا رہا ۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جے یو آئی خود بھی آزادی مارچ کے حوالے سے ابھی تک مخمصے کا شکار ہے ۔
عوامی سطح پر سنسنی اس وقت پھیلی جب سوشل میڈیا پر کچھ حلقوں کی جانب سے یہ خبر پھیلائی گئی کہ مولانافضل الرحمان نے حکومت کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیاہے اور اس حوالے سے قائد جے یوآئی نے ایک ٹوئٹ کیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر تلاش وبسیار کے باوجود مولانا فضل الرحمان کاٹوئٹ تو کہیں نظر نہ آیا لیکن ایک نجی نیوز چینل کے پروگرام میں مولانا فضل الرحمان کے برادر محترم مولانا عطاءالرحمن نفس بہ نفیس ایک گاڑی میں جاتے ہوئے نمودار ہوئے اورنہایت طمطراق اورٹھسے سے بیان دیا کہ جب حکومت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے لوگوں کو گرفتارکیا گیا اورشہریت منسوخ کردی ہے تو ہم بھی معاہدے کے پابند نہیں رہے ۔
انہوں نے کہا مو لانافضل الرحمان کی جانب سے معاہدے کے خاتمے کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم اورحکومت معاہدے پابند نہیں ہیں۔ مولانا عطاءالرحمان نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب ہم ریڈ زون میں بھی داخل نہ ہونے کے پابند نہیںہیں اورساتھ یہ پیشگوئی بھی کردی کہ یونہی آزادی مارچ کی صورت میں لاکھوں لوگوں کا سیلاب اسلام آباد میں داخل ہوگا تو یہ حکومت ختم ہوجائیگی۔
مولاناعطاءالرحمان کے بیان کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ ایک نیوزچینل پر جے یوآئی کے رہنما مولاناراشد سومرو کابیان بھی چلنا شروع ہوگیا۔مولانا راشدسومرو کا کہناتھا کہ جب حکومت کے ساتھ معاہدہ ہی نہیں ہواتو منسوخی کیسی؟ہم نے توڈپٹی کمشنر اسلام آباد کوجلسہ کرنے کیلئے درخواست دی تھی اور اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ سے معاہدہ ہوا تھا ۔ ایسے میں ایک روز قبل کے رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم خان درانی اورحکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کی جانب سے جاری ہونیوالے بیانات کے تناظر میں جے یو آئی کا حالیہ موقف سننے کے بعد مختلف خدشات سر اٹھانا شروع ہوگئے تھے کہ اب شائد خیر نہ گزرے اوروہ کچھ ہوجائے جو مجھ سمیت بہت سے محب وطن پاکستانی نہیں چاہتے ۔
اسی تناظرمیں حکومتی موقف دینے کیلئے سابق وزیر خزانہ جناب اسد عمر بھی ایک نیوزچینل پر نمودار ہوئے اور واضح کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے مطابق جے یو آئی ریڈ زون میں داخل نہ ہونے کی پابندہے اوراگرریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی تو قانون حرکت میں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ کے شرکاءکو کسی صورت بھی ریڈزون میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ وزارت داخلہ کی جانب سے بھی آزادی مارچ کے شرکا کی ایسی کسی سرگرمی سے نمٹنے کیلئے بھی تیاریوں کی خبریں چلنا شروع ہوگئیں تو بے اختیار ایسا لگا کہ انتہائی گڑ بڑ ہونیوالی ہے اور موجودہ حالات میں جہاں وطن عزیز کو انتہائی استحکام کی ضرورت ہے، کسی سیاسی جماعت اور حکومت کے درمیان ٹکراﺅ کی صورتحال مزید انتشار کا باعث بنے گی۔
وسواس و خدشات سے لبریز دل کے ساتھ زیر لب دواﺅں کا سلسلہ اور پریشانی کاعالم جاری تھا کہ اللہ بھلا کرے مولانا فضل الرحمان کاجن کی جانب سے بروقت بیان جاری کرکے مولانا عطاءالرحمان ، راشد محمود سومرواورجے یو آئی کے دیگر رہنماﺅں کی جانب سے کئے جانیوالے تمام تردعوﺅں اور قیاس آرائیوں کا خاتمہ کردیا گیا ۔ جے یو آئی کے قائد محترم نے اپنے بیان میں فرمایاکہ آزادی مارچ کے حوالے سے انتظامیہ سے معاہدہ برقرار ہے ،افواہوں پر یقین نہ کیا جائے ، ہمارا معاہدہ توڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یوں مولانا فضل الرحمان کے بروقت اقدام نے دگرگوں ہوتی ہوئی صورتحال کو سنبھال لیا جس کے بعد حکومتی حلقوں میں سکون کی فضانظر آرہی ہے اور قرائن یہ بتاتے ہیں مولانا فضل الرحمان کی جانب سے سیاسی فہم اوردانشمندی کا یہ مظاہرہ آزادی مارچ کے اختتام تک جاری رہے گا۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔