پانچوں صوبوں کی آواز
پاکستان میں سیاسی ماحول خاصا گرم ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان زبانی معرکے جاری ہیں بلکہ حکومت کی طرف سے تو بدزبانی بھی سننے کو ملتی ہے وزیراعظم تو چہرے پر ہاتھ پھیر کے نواز شریف کے بارے میں کہتے ہیں میں اب تمہیں نیا عمران خان بن کر دکھاونگا یعنی اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان اب نیو خان ہیں نیو خان سے مجھے یاد آیا امیر عبداللہ خان روکھڑی نے جب کاروبار کرنے کا ارادہ باندھا تو انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کے والد سے مشورہ کیا جو سینما کے کاروبار سے وابستہ تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ سینما کے کاروبار میں آجائیں جواباً امیر عبداللہ روکھڑی نے کہا ہم میانوالی کے لوگ اس کاروبار کو پسند نہیں کرتے گو کہ میانوالی کے لوگ کلچر پسند ہیں مگر سینما پسند نہیں ہیں سو انہوں نے ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو اہمیت دی اس وقت خان ٹرانسپورٹ کے نام سے ایک بس سروس رجسٹر تھی سو انہوں نے نیو خان بس سروس شروع کردی اور پورے ملک میں پہلے نمبر کی بس سروس کا اعزاز حاصل کیا تفصیل اس لیے بتا رہا ہوں کہ عمران خان جو بقول اپنے اب نیا عمران خان یعنی نیو خان بننے جارہے ہیں تو وہ نیو خان والوں سے پوچھ لیں کہ انہیں اس نام کے استعمال پہ کوئی اعتراض تو نہیں ہے…………..؟
پوچھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ روکھڑی خاندان اس وقت بھی میانوالی میں عمران خان کا بڑا سیاسی حریف ہے اور اتفاق سے مسلم لیگ ن کے ساتھ ان کی وابستگی بھی بہت گہری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وزیر اعظم کے خلاف عدالت میں چلے جائیں اور نیا تنازعہ کھڑا ہوجائے ویسے آپس کی بات ہے عمران خان یعنی نیو خان اور نیو خان بس سروس کی اس وقت کارگردی ایک جیسی ہے نیو خان بس سروس بھی آجکل رینگ رینگ کے چلتی نظر آتی ہے اور موجودہ حکومت بھی رینگ رینگ کر چلتی نظر آتی ہے سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیو خان بس سروس بھی اور نیو خان حکومت بھی عوام کی چیخیں نکالنے کی حد تک ایک پیج پر ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے عوام اپوزیشن کے جلسوں کو بڑے بڑے جلسوں میں بدل رہے ہیں ابھی تک جو جلسے ہوئے ہیں ان میں جوش کے ساتھ ہوش بھی نظر آرہا ہے مختلف سیاسی رہنما پہلی بار حقیقی جمہوریت کے حوالے سے ایک نیا مگر حقیقی بیانیہ قوم کے سامنے رکھ رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے ضروری ہے کہ صف بندی کر لی جائے اور اپنی اپنی صف میں کھڑے ہو کے ملک کو آگے بڑھایا جائے اور یہ فیصلہ عوام پہ چھوڑ دیا جائے کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے ناپسند نواز شریف کی بات کو اگر عام الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک کونسلر کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ علاقے کے تھانیدار کے اوپر تھانیدار لگ جائے اور تھانیدار کو بھی یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کونسلر کے اوپر کونسلر لگ جائے نواز شریف کے اس بیانے پر طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں عوامی سطح پر لوگ اس بیانیے کو پسند اور ناپسند کر رہے ہیں پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا پیمانہ اگر عوام ہیں تو پھر آئندہ چند دنوں تک معلوم ہوجائے گا یہ بیانیہ کتنا مقبول یا نا مقبول ہے البتہ حکومتی ترجمان اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ عوام نے نواز شریف کے بیانیے کو مسترد کردیا ہے اور اپوزیشن کے جلسے میں تمام لیڈر خالی کرسیوں سے خطاب کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر جلسوں میں صرف کرسیاں ہوتی ہیں تو پھر ان کرسیوں میں سے مختلف رہنماؤں کے خطاب کے دوران نعرے کون لگاتا ہے بھنگڑے کون ڈالتا ہے گو عمران گو کے نعرے کون لگاتا ہے کیا یہ کوئی آسمانی مخلوق ہوتی ہے……..
حکومت اس وقت درحقیقت گھبرائی مخلوق نظر آتی ہے اورانہیں سب زیادہ مریم نواز سے گھبراہٹ ہو رہی ہے سو مریم نواز ان کے نشانے پر ہیں انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کراچی میں ان کے ہوٹل پر جس طرح دھاوا بولا گیا ان کی پرائیویسی میں مداخلت کی گئی اور ان کے شوہر کو گرفتار کر کے لے جایا گیا یہ سب کچھ ان کے اعصاب کو شل کرنے کی کوشش ہے مگر حیرت انگیز طور پر مریم نواز ایک بہادر لیڈر کی طرح روزانہ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ نظر آرہی ہیں ان کے لب ولہجے میں بلا کا اعتماد نظر آتا ہے اور کسی بھی طرح کا خوف دکھائی نہیں دیتا یہی وجہ ہے کہ ان کے سیاسی اور سماجی کردار کو بہت بری طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے پی ٹی آئی کی نچلی قیادت کو تو چھوڑیں خود وزیراعظم پاکستان انہیں نانی کے لقب سے یاد کرتے ہوئے ان کی نقلیں اتارتے نظر آتے ہیں وزیراعظم جب ایسا کرتے ہیں تو دراصل یہ اقرار کرتے ہیں مریم نواز ان کے مقابلے کی لیڈر ہیں ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو اس ملک میں جب بھی کوئی خاتون لیڈر ملکی سطح پر سامنے آئی ہے تو سب سے پہلے اس کے سماجی کردار پر انگلیاں اٹھائی گئیں سیاسی طور پر بھی ایک غدار کا لقب دیا گیا،بھٹو یا نواز شریف کی بیٹی کی تو بات ہی کیا بابائے قوم کی بہن اور مادر ملت کو بھی غدار کا تمغہ دیا گیا، بے نظیر بھٹو کو بھی مختلف الفاظ میں غدار کہا گیا اب مریم نواز کو بھی غدار کا لقب دیا گیا ہے میرے خیال میں فاطمہ جناح بے نظیر بھٹو اور مریم نواز کا آپس میں کوئی موازنہ نہیں ہے،مگر یہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں کوئی فاطمہ جناح کبھی نظیر بھٹو تو کبھی مریم نواز کی شکل میں بہرحال آتی ہیں اور پھر وقت ثابت کرتا ہے کہ سب کے منصب کے سو حوالے ہیں،میں نے ایک پوست لکھی اور ایک مصرعہ لکھا تھا…………
.. چاروں صوبوں کی آواز...
دیکھنا چاہتا تھا کہ لوگ اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں جواباً اکثریت نے لکھا
مریم نواز مریم نواز
اب یہ نعرہ جو میں نے یہ دیکھنے کیلئے لکھا کہ لوگ کیا کہتے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ
اب یہ نعرہ گلی گلی گونج رہا ہے
چاروں صوبوں کی زنجیر
بے نظیر بے نظیر
پانچوں صوبوں کی آواز
مریم نواز مریم نواز
المختصر
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو