”خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں میری نانی کا ذکر کیا جس کے بعد سے ۔۔“ حامد میر نے ٹویٹر پر پیغام جاری کر دیا
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )قومی اسمبلی کے اجلاس میں ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے اپنی تقریر کے دوران سینئر صحافی حامد میر کی نانی کا ذکر کہا جس پر اب ان کا پیغام بھی سامنے آ گیاہے ۔
تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی حامد میر نے پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ”خواجہ آصف نے آج قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران میری لاپتا ہونے والی نانای کا ذکر کیا جس کے بعد بہت سے لوگ مجھے فون کر کے اس بارے میں پوچھ رہے ہیں تو یہ رہا میرا آرٹیکل جو کچھ سال قبل پاکستان اور بھارت میں شائع ہوا تھا ۔“
حامد میر نے کچھ سال قبل اپنے لکھے گئے آرٹیکل میں بتایا کہ ”میں صرف پانچ سال کا تھا ، میں نے اپنی والدہ کو رات میں روتے ہوئے دیکھا تو جب وہ سنبھل گئیں تو انہوں نے مجھے میری نانی غلام فاطمہ کے بارے میں بتایا ، قیام پاکستان کے وقت میری نانی اور ان کے اہل خانہ نے جموں میں اپنا گھر چھوڑا اور سیالکوٹ کیلئے نکل پڑے ، میر ی نانی کے والد محترم ان کے ساتھ نہیں آ سکے کیونکہ وہ آبائی علاقے میں رہتے ہوئے دیگر لوگوں کو وہاں سے نکلنے میں مدد کر رہے تھے ۔“
”لیکن جیسے ہی میری نانی کی بس جموں شہر سے باہر نکلی تو اسے ہندوﺅں اور سکھوں کے ایک مسلح گروہ نے روک لیا ، انہوں نے بے دردی سے تمام مردوں کو قتل کر دیا ، اس وقت میری والدہ ایک چھوٹی سی بچی تھیں ، جب حملہ آوروں نے خواتین سے باہر آنے کیلئے کہا تو میری نانی غلام فاطمہ نے میری والدہ ممتاز کو لاشوں کے نیچے چھپنے کیلئے کہا ، اس کے علاوہ میری نانی نے اپنی دو چھوٹی بیٹیوں شمیم اور جمیلہ کو بھی لاشوں کے نیچے چھپا دیا لیکن ان کی گود میں ایک چھوٹا سا نومولود تھا جسے چھپانا ناممکن تھا اور وہ رو رہا تھا ،تو انہوں نے اس کے ساتھ جنگل کی طرف دوڑ لگائی ، اس دوران میری والدہ اور ان کی دو چھوٹی بہنیں لاشوں کے نیچے چھپی رہیں اور زندہ بچنے میں کامیاب ہو ئیں ۔میری نانی کو جب آخری مرتبہ دیکھا گیا تو اس وقت ان ایک ہاتھ میں چھڑی تھی اور دوسرے میں نومولود ، میری نانی اپنی چھڑی سے ان کو دو بھگانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن حملہ آور ان پر ہاوی ہو گئے اور انہیں گھسیٹتے ہوئے لے گئے ۔“
میں اپنی نانی کی کہانی اپنے دماغ سے نہیں نکال پاتا ہوں ، کچھ سالوں بعد مجھے معلوم ہوا کہ میری والدہ اور ان کی بہنوں کو بلوچ رجمنٹ کے ”جوانوں نے نومبر 1947 میں ” کاتھوا“ روڈ سے ڈھونڈا جو کہ لاشوں سے بھری ہوئی تھی ، جس کے بعد انہیں رفیوجی کیمپ بھیج دیا گیا جہاں میرے دادا نے انہیں ڈھونڈ لیا لیکن وہ اپنی اہلیہ اور ہماری نانی کو بہت عرصہ تک تلاش کرتے رہے لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئیں ۔حامد میر کا کہناتھا کہ مجھے یہ سمجھے نہیں بہت سال لگ گئے کہ میری والدہ 1971 کی اس رات کو اتنا زیادہ کیوں رو رہی تھیں ۔“