سوچا تو کچھ اور تھا، لیکن گزشتہ روز جب ٹیلی ویژن سکرین پر انسانی حقوق کی یادگار کا لفظ بار بار سننے کو ملا تو حیرانی ہوئی کہ یادگار تو پرانے زمانے میں فنا ہو چکی، یعنی اپنا وجود کھو چکی، جو راہی ئ عدم ہو جانے والے انسانوں کو یاد رکھنے کے لئے بنائی جانے والی عمارت کو کہا جاتا تھا۔ اب یہ جس یادگار کا ذکر ہو رہا ہے یہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی سفید سنگ مرمر کی عمارت کے باہر ایک خالی جگہ پر بنائی گئی ہے اور یہ بھی عدالت عظمیٰ کی عمارت سے مماثلت رکھتے ہوئے سفید پتھروں سے یعنی سفید سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے۔اس تعمیر میں کچھ چبوترے ہیں، یعنی کہ سفید سنگ مرمر کے بیٹھنے کے لئے بینچ بنائے گئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے کچھ یو ٹیوبرز انہیں قبر قرار دے رہے ہیں۔(انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ سخت افسوس ہوا یہ سن کر، لیکن جو جملے (سلوگن)اس نئی تعمیر شدہ عمارت یعنی اس یادگار کے اندر چھ سے ٓاٹھ فٹ اونچی سفید دیواروں پر لکھے گئے ہیں انہیں پڑھ کر ضرور حیرانی ہوئی،کیونکہ جو کچھ وہاں لکھا گیا ہے اس کا تو پاکستان میں آج نام و نشان نہیں ملتا۔ جیسے وہاں لکھا ہے اجتماع کا حق۔اب کوئی سابق قاضی القضا سے پوچھے یہاں کسے اجتماع کا حق ہے؟ پاکستان میں اجتماع کا حق صرف اس کے پاس ہے جو سرکار کے ساتھ ہاتھ ملا کے رکھے۔ جیسے جناب مولانا فضل الرحمن کو یہ حق ہے وہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا کہیں بھی کبھی بھی جلسہ کر سکتے ہیں۔ دراصل مولانا فضل الرحمن صاحب کے ڈنڈا بردار پُرجوش اور باوردی نوجوانوں سے ہر حکومت کو ڈر لگتا ہے کہ ان کے پیروکاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ڈی چوک اور سپریم کورٹ کے باہر بھی جا ”دھمکتے“ہیں۔ ہاں اگر قیدی نمبر 804کی جماعت اجتماع کا یہ حق مانگے تو انہیں سنگجانی کے میدان میں جگہ دی جاتی ہے۔ لاہور میں مینارِ پاکستان پہ چند دِنوں پہلے مولانا فضل الرحمن نے ایک بہت عظیم الشان جلسہ عام کیا تھا وہاں پر جگہ دینے کی بجائے قیدی نمبر 804کے پیروکاروں کو مویشی منڈی میں جگہ ملی، کہ یہ ورکر نہیں گائے، بیل، بھینس، بکریاں ہیں، یعنی ہم اپنے عوام کو یہ درجہ دیتے ہیں۔ مانا کہ ”ناپسندیدہ پارٹی“ ورکر ہیں، لیکن ہیں تو یہ بھی پاکستانی عوام۔ ایک اور سلوگن جو ان سفید پتھروں پر لکھا ہوا تھا وہ ہے انجمن سازی کا حق۔ کوئی بتائے اس پاکستان میں آج کس کو یہ حق ہے، کہاں لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں، کہاں لوگ بات کر سکتے ہیں،جہاں سیاسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان چھن جائے وہاں کیسا انجمن سازی کا حق۔ ایک اور نعرہ یا ایک اور سلوگن جو لکھا ہے وہ ہے غلامی کی ممانعت۔ کوئی بتلا دے کہ اس ملک میں ”آزاد کون“ ہے ہم سب تو ویسے ہی غلام ہیں جیسے 1947ء سے پہلے تھے تب ”گورا صاحب“کے غلام تھے اب ”کالا صاحب“ کے غلام ہیں، جس ملک کی40 فیصد آبادی یعنی ایک تہائی سے بھی زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہوں وہاں کیسی آزادی۔یہاں تو غلاموں کی فوج ہے جسے جدھر چاہو ”ہانک دو“۔ایک اور سفید پتھر پر لکھا تھا عوامی مقامات تک بلا تفریق رسائی۔ مجھے سمجھ نہیں آئی یہ عوامی مقامات سے کیا مراد ہے اگر آپ ایک ”پُرامن اجتماع ڈی چوک“ میں نہیں کر سکتے، اگر آپ ایک پر امن اجتماع موچی دروازہ باغ، ناصر باغ یا مینارِ پاکستان میں نہیں کر سکتے تو پھر عوامی مقامات پر اجتماع کا حق کسے میسر ہے۔عوام کو عوامی مقامات تک بلا تفریق رسائی کیا واقعی میسر ہے؟ ایک اور کمال کا سلوگن منصفانہ سماعت تھا جسے سن کر یقینا ہر ذی شعور پاکستانی کو ہنسی آتی ہے۔ اِس بارے میں تفصیل سے لکھوں گا تو شاید۔۔۔(ڈر لگتا ہے اٹھا نا لیا جاں)لہٰذا معافی۔ جہاں تک رہا معلومات تک رسائی کا نعرہ، تو کافی عرصہ ہوا قاضی صاحب ہی کی بدولت ہمیں یہ پتہ چلا تھا کہ بحیثیت صحافی ہمیں یہ فائدہ ہو گا کہ اب ہم معلومات تک رسائی رکھ سکتے ہیں، لیکن جہاں تک مجھے پتہ ہے جہاں تک میرا اپنے دوستوں سے رابطہ ہے معلومات تک رسائی تو دور کی بات کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا آپ ایک چٹھی ”ڈال دیں“ اور اس کے بعد یوم قیامت کا انتظار فرمائیں۔ نقل و حرکت کی آزادی یہ بھی ایک نعرہ ہے جو سفید پتھر پر درج ہے۔ مجھے کوئی بتائے کہ کیا صوبہ خیبر پختون خوا سے آنے والے کسی جلوس کو پنجاب میں داخلے سے روکنا اس ملک کے شہریوں کے آزادانہ سفر کرنے پر پابندی نہیں ہے؟ آپ کسی شخص کے بارے میں یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ توڑ پھوڑ کرے گا یا آگ لگائے گا۔ جب تک کوئی شخص کوئی جرم نہ کرے وہ ملزم نہیں قرار پاتا۔صوبہ خیبرپختونخوا سے پنجاب آنے والوں کو مکمل آزادی ہونی چاہئے بہرحال جو ”مزاج شاہاں“ چاہے۔”اظہارِ رائے کی آزادی“ یہ وہ نعرہ ہے جو ہم بحیثیت صحافی برس ہا برس سے سنتے آرہے ہیں اور اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں ٹی وی کی سکرین پر دھومیں مچانے والے معروف اینکرز کے پروگرام بھی سننے کو دل نہیں کرتا کہ وہاں بھی اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوتی بس: ”گول گول باتیں“ ہوتی ہیں یا ”گول مول باتیں“ ہوتی ہیں۔ یہ ہے ہماری اظہارِ رائے کی آزادی۔ جینے کی آزادی کیا ”کمال“ کا سلوگن ہے۔ پاکستان میں تو بس مرنے کی آزادی ہے۔ یہاں جینے کی آزادی کس کے پاس ہے۔ جہاں لوگ روزانہ خودکشیاں کر رہے ہوں۔ جہاں مائیں اپنے بچوں کو زہر دے رہی ہوں،جہاں باپ اپنے بیوی بچوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ یہاں جینے کی تو نہیں مرنے کی آزادی ہے۔یہ تمام نعرے عدالت عظمیٰ کے ساتھ نئی تعمیر ہونے والی عمارت کی ”سنگ مرمر کی دیواروں“ پر لکھے گئے ہیں۔ سوچا ان سلوگن کی حقیقت کے بارے میں بھی کچھ لکھ دوں ہاں ایک چیز رہ گئی کہ نعرہ اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط کا جواب نہ دے کر ان کی ازادی اظہار پر ہی تو پابندی لگائی، ان جج صاحبان نے کیا جرم کیا تھا انہوں نے تو بس ایک خط لکھا تھا آپ کو آپ اسے ”کورٹ روم“میں سن لیتے، مگر اپ نے سننا پسند نہیں کیا تو پھر آزادی اظہار تو نہیں رہی نا، لیکن اس کے باوجود مجھے ایک شدید احتجاج ہے کہ جو لوگ اسے بنیادی حقوق کا قبرستان قرار دے رہے ہیں اور سنگ مرمر کی ”بینچوں کو قبر“ قرار دے رہے ہیں یہ زیادتی ہے۔ اللہ قاضی صاحب کو اب سکون کی ”ریٹائرڈ لائف“ گزارنے کے مواقع فراہم کرے۔ یہ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ سے۔
٭٭٭٭٭