ترکی اور اس کی فوج            (3)

Oct 28, 2024

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

 ترکی میں جو نئی فوج (ینی چری) تشکیل دی گئی تھی اس کی نشست و برخاست اور خوردو نوش کے طریقے بھی جداگانہ تھے۔ ان کو حکومتی روز و شب میں دخل دینے کی اجازت نہیں تھی۔ درجِ ذیل سطور میں ان طور طریقوں کی دلچسپ روایات پر تبصرہ کیا گیا ہے:

کھانے کے اصول

میر دستہ کو اپنی پسند کے مطابق کھانے کو تیار کرنے کی اجازت تھی۔ سب کے الگ الگ باورچی خانے تھے۔ سارے ینی چری پیسہ جمع کرتے اور کھانا پکواتے۔ حکومت کوئی مداخلت نہ کرتی تھی۔ گوشت کا نرخ ینی چری کے لئے الگ مقرر کر دیا گیا تھا۔ چاہے جتنی گرانی ہوینی چری کو گوشت ہمیشہ مقررہ نرخ پر ہی ملتا تھا۔ گوشت کی قیمت ینی چری ادا نہیں کرتے تھے بلکہ حکومت خود قصابوں کو دیا کرتی تھی۔ ینی چری کے نزدیک سب سے اہم اور مقدس چیز قازان (Qazan) یعنی دیگ تھی۔ اس کے چاروں طرف جمع ہو کر مشورہ کیا کرتے تھے۔ جب ینی چری کسی سلطان کے خلاف ہو جاتے تو بہت سے ینی چری اپنے کھانے کی دیگ کو باورچی خانہ سے میدان میں لاتے اور سب لوگ جمع ہو کر اس کو الٹ دیتے۔ اس طریقہ کو ”قازان قالد یرمہ (Qazanqaldirma) کہتے تھےّ یہ بغاوت کی علامت تھی۔ اس کے معنی تھے کہ آج سے ہم حکومت کا نمک نہیں کھائیں گے۔ دیگ کو الٹنے کے بعد ینی چری قابو سے باہر ہو جاتے تھے۔ وہ مسلح ہو کر حملہ کرتے، لوٹ مار کرتے اوریوں ینی چری سلطان سے اپنے مطالبات منوا لیتے تھے۔ عثمانی سلطنت کے دور زوال میں ینی چریوں نے کئی باردیگیں الٹیں اور بغاوتیں کیں۔ سلاطین دیگ الٹنے سے پہلے ہی ان کی خواہشوں کو پورا کر دیتے تھے۔ خود عثمانی سلاطین نے جلوس یا تخت نشینی کے موقع پر زیادہ بخشیش دینے کا طریقہ ایجاد کرکے ان کی عادت اور خراب کر دی تھی۔ ترکوں کی دیگ پکانے اور دیگ اڑانے کی اس روایت نے شعر و ادب میں بھی بار پایا۔ خواجہ حافظ شیرازی کا یہ شعر اس حقیقت کا غماز ہے:

فغان کیں لولیانِ شوخ، شیریں کار شہر آشوب

چناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغمارا

(ترجمہ: یہ شوخ و شنگ اور سارے شہر کو فتنہ میں مبتلا کرنے والے معشوق دل سے صبر کو اس طرح چھین لے جاتے ہیں جس طرح ترک کھانے کی لوٹی ہوئی دیگ کو)

شادی

سلطان سلیم یادوز (سلیم اول) کے دور تک سارے ینی چری غیر شادی شدہ تھے۔ بعدازاں ان ینی چریوں کو جو سن رسیدہ ہوتے تھے، شادی کی اجازت مل گئی۔ آخر میں بتدریج شادی کا رواج بڑھنے لگا۔ ینی چری کے مرنے کے بعد اس کی اولاد کو ینی چری بنایا جا سکتا تھا۔ ان لوگوں کو ”قول او غول لری“ (OJLO GLIARI) (یعنی خادموں کی اولاد)کہتے تھے۔ ینی چری دراصل پیادہ فوج تھی لیکن بعض ینی چری کو سوار فوج میں بھی لے لیا جاتا تھا۔

ان کا پہلا مرکز بروصہ تھا۔ بعدازاں ادرنہ اور استنبول میں بھی ان کے مراکز قائم ہوئے جہاں ان کے رہنے کے لئے بڑی بڑی عمارتیں اور بیرکیں تعمیرکی گئیں۔

خدمات

زمانہء امن میں یہ لوگ بہت سے کام کرتے تھے جب ”دیوان ہمایوں“ کا اجلاس ہوتا تھا تو ینی چری باری باری سے پہرہ دیتے تھے۔ اگر شہر میں آگ لگ جاتی تھی تو یہ اس کو بجھانے کے لئے بھی جاتے تھے۔یہ لوگ اپنے آغا کے ساتھ گھومتے تھے اور چوکیوں میں جا کر امن و امان قائم کرنے میں مدد کرتے تھے۔ ہر تیسرے سال ان کو تبدیل کر دیا جاتا اور ان سے ضلعوں کی پاسبانی کا کام لیا جاتا تھا۔ یہ زیادہ تر سرحدی علاقوں میں رہتے تھے۔ زمانہ جنگ میں یہ لوگ ہر وقت سلطان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ سلطان ان کو اپنی اولاد سمجھتا تھا۔طبل جنگ پر چوٹ پڑتے ہی سارے ینی چری سلطان کے ساتھ اس کے پیچھے 9قطاروں میں کھڑے ہو جاتے تھے انہیں دوسرے محکمہ والے سامان حرب سپلائی کرتے تھے۔ مسلح ہونے کے بعد یہ بکتاشی طریقت کی مشہور دعا ”گل بانگ“ زور زور سے پڑھتے ہوئے اور نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے بادشاہ کے سامنے جا کر اپنے کمال کا مظاہرہ کرتے تھے۔ینی چری کے چاروں طرف دیگر فوجی دستے ہوتے تھے مثلا توپچی اور سوار وغیرہ۔ ینی چری بڑی بے جگری سے لڑتے تھے۔ جنگ ختم ہوتے ہی یہ سلطان کے چاروں طرف جمع ہوجاتے اور سلطان ان کی حفاظت میں نقل و حرکت کرتا تھا۔

سزائیں 

ینی چری دستوں کے الگ الگ جیل خانے تھے جنہیں توقیف خانہ کہتے تھے۔ عام طور سے انہیں ڈنڈوں سے پیٹا جاتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ اسی 80ڈنڈے مارنے کا دستور تھا۔ بعض اوقات ان کو بیرکوں سے نکال کر ضلعوں میں بھیج دیاجاتا تھا۔ ایسے سزا یافتہ ینی چری کو ”مرد قلعہ“ کہتے تھے۔ جس ینی چری کو پھانسی دینی ہوتی، اس کا نام رجسٹرسے خارج کر دیاجاتا تھا۔ اس کو رومیلی حصار (ترکی کا مشہور تاریخی قلعہ جس سے استنبول کی فتح میں مدد ملی) پہنچا دیا جاتا اور رات کے وقت اس کا گلا گھونٹ کر لاش کو آبنائے باسفورس میں بہادیا جاتا تھا۔

ینی چریوں کاخاتمہ

ینی چری کو دیگر فوجیوں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہ ملتی تھی اور ان کا لباس بھی عمدہ ہوتا تھا۔ ان کا تعلق براہ راست سلطان اور محل وغیرہ سے تھا۔ بعد میں ینی چری غرور، لالچ اور بدنظمی کا شکار ہو گئے جس کی وجہ سے سلاطین کو زبردست مشکلات اور خطرات سے دوچار ہونا پڑا۔ جہاں تک بدنظمی کا تعلق ہے اس میں خود سلاطین کی بھی غلطیاں تھیں۔ مثلاً سلطان کی نااہلی اور کمزور پالیسی کی وجہ سے ینی چری کے دلوں سے سلطنت کا خوف جاتا رہا تھا۔ بعض اوقات ذاتی مفاد کی خاطر افسران اور سلاطین ینی چری قانون کے خلاف لوگوں کو ینی چری بناتے۔اس کے علاوہ بعض اوقات وزراء و امراء محض اپنی جان بچانے کی خاطر یا دیگر اسباب کی بناء پر ینی چری فوج کو بھڑکاتے تھے جس کی وجہ سے ینی چری سیاست میں حصہ لینے لگے تھے۔ یہ چیز ملک کے لئے نہایت ہی بری ثابت ہوئی۔ تاہم سولہویں صدی کے آخر تک یہ فوج نہایت مستعدی اور وفاداری سے سلطنت عثمانیہ کی خدمت کرتی رہی۔

1444ء میں مراد ثانی کے دور سے انہوں نے سرکشی شروع کی۔ انہوں نے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کیا او رکم عمر سلطان محمد ثانی (فاتح استنبول) کو تخت سے اترنے پر مجبور کر دیا۔

1451ء میں جب سلطان محمد ثانی اناطولیہ کی ترک مخالف ریاست ترہمانیہ سے جنگ کرکے واپس آرہا تھا تو ینی چری فوج ایک درہ میں آکر رکی اور زبردستی بخشیش کا مطالبہ کرنے لگی۔یہ ڈسپلن کے خلاف تھا۔ سلطان فاتح کو بعض تبدیلیوں اور سزاؤں کے ذریعہ ینی چری کا زور توڑنا پڑا۔

1481ء میں سلطان محمد ثانی کی وفات پر ینی چری نے پھر سیاست میں حصہ لیا۔ سلطان بایزید کا ساتھ دیا اور اس کے بھائی شہزادہ جم کے حامی وزیراعظم محمد پاشا کو استنبول میں قتل کر دیا۔ سلطان  بایزید ثانی کے خلاف بھی بغاوت کی گئی لیکن اس نے اس بغاوت کو سختی سے دبا دیا۔ سلطان بایزید چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا شہزادہ احمد اگلا سلطان ہو لیکن ینی چری نے دوسرے بیٹے سلطان سلیم کا ساتھ دیا اور اسے تخت سلطنت پر متمکن کر دیا۔

سلطان سلیم نے جب ایران پر فوج کشی کا ارادہ کیا تو ینی چری نے واپسی کا مطالبہ کیا اور سلطان سلیم کے خیمے میں گولی بھی چلائی۔ جنگ چالدیران کے بعد سلطان سلیم ایران کے دیگر علاقوں کی جانب بڑھنا چاہتا تھا لیکن ینی چری نے پھر مخالفت کی۔ اس لئے اسے مجبوراً استنبول واپس ہونا پڑا۔ واپسی پر سلطان نے ینی چریوں کو اکسانے والوں کو قتل کرا دیا۔اس کے بعد سلطان سلیم کے دور میں انہوں نے کوئی سرکشی نہ کی کیونکہ وہ نہایت ہی سخت گیر سلطان تھا۔

1524ء میں سلطان سلیمان کی مرکزسے غیر حاضری کی وجہ سے بعض لوگوں کے اکسانے پر ینی چری نے استنبول میں ایک بار پھر فتنہ و فساد کا بازار گرم کیا اور آبادیوں اور مال و دولت کو لوٹا۔ سلطان سلیمان نے نہایت ہی سختی سے اس بغاوت کودبا دیا۔(جاری ہے)

مزیدخبریں