مصر کا چین اور ایران کی طرف جھکاﺅ!
مصر میں نئی حکومت کے قیام نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔ اخوان المسلمون کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت نے ایران اور چین سے بہتر تعلقات کے لئے کوششیں شروع کردی ہیں۔یہ تبدیلی امریکہ کے لئے خاصی پریشان کن ہے، اسے ڈر ہے کہ مصر ہاتھ سے نکل گیا تو خطے میں بہت کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا....صدر محمد مرسی نے حال ہی میں چین کا دورہ کیا ہے،جس میں دوستی اور تعاون کے کئی دوطرفہ معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس دورے کا بنیادی مقصد مصر کے لئے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کا حصول یقینی بنانا اور قرضے چکانے کی صلاحیت بہتر بنانا تھا، تاکہ معیشت میں تین عشروں کے دوران پیدا ہونے والی خرابیاں تیزی سے دور کی جا سکیں۔ یہ دورہ چینی صدر ہوجنتاﺅ کی دعوت پر ہوا۔چین سے صدر مرسی ناوابستہ تحریک کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے ایران کے دارالحکومت تہران گئے۔
محمد مرسی کو صدر کا منصب سنبھالے ہوئے ابھی صرف تین ماہ ہوئے ہیں اور انہوں نے خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کا عندیہ دینا شروع کردیا ہے۔ایک طرف وہ امریکہ اور یورپ سے مزید امداد حاصل کرنا چاہتے ہیں ، دوسری طرف چین اور ایران جیسے ممالک سے بھی تعلقات بہتر بنا رہے ہیں، تاکہ ان سے بہتر سرمایہ کاری کرائی جا سکے اور ملک کی صنعتی بنیاد کو مستحکم کرنے میں مدد ملے۔ مبصرین کے خیال میں صدر محمد مرسی مصر کی خارجہ پالیسی میں چند بنیادی تبدیلیاں متعارف کراکے امریکہ اور یورپ کی طرف غیر معمولی جھکاﺅ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مصر کے سابق صدر انور سادات نے 1972ءمیں سابق سوویت یونین سے تعلقات کی بساط لپیٹ کر خارجہ پالیسی کو مغربی مفادات کے تابع کردیا تھا۔
ایران کی طرف محمد مرسی کا جھکاﺅ قابل فہم ہے۔وہ خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنا چاہتے ہیں۔1979ءکے بعد سے کسی مصری صدر نے ایران کا دورہ نہیں کیا،کیونکہ ایران میں قائم انقلابی حکومت 1981ءمیں مصر کے صدر انورسادات کے قتل کو آج بھی درست قرار دیتی ہے۔صدر مرسی نے ایران کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا، جب ایران کا ایٹمی پروگرام انتہائی متنازع حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ مغربی قوتیں ایرانی قیادت سے سخت ناراض ہیں۔محمدمرسی کا دورہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ نئی مصری حکومت مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے معاملے میں ڈکٹیشن پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں اور اپنے اہم فیصلے خود کرے گی۔امریکہ کے لئے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مصر کی حکومت چین سے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔چین نے انقلاب کے بعد کے ایران سے بھی اچھے تعلقات استوار کئے۔ مصر میں بھی اسلام پسندوں کی حکومت چین کے لئے زیادہ قابل قبول ہو سکتی ہے، کیونکہ مغربی دنیا اب مصر کو شک کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔چین اس صورت حال سے کماحقہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر سے چین بہتر طور پر نہیں نمٹ سکا۔اس نے صورت حال کا بہتر ادراک کرتے ہوئے اقدامات نہیں کئے۔لیبیا میں توانائی کے شعبے میں چین کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔شام میں عوام کے خلاف فورسز کی سفاک کارروائیوں کی حمایت کرکے چین نے لاکھوں شامیوں کو شدید ناراض کیا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں کو ویٹو کرکے چین نے شامیوں کو مزید مشتعل کیا ہے۔شام کے مختلف شہروں میں چینی طرز عمل کے خلاف احتجاج اور اس کا پرچم جلانے کے واقعات عام ہیں۔ایسے میں اگر بشارالاسد کی حکومت ختم ہوئی تو چین کے لئے نئی حکومت کے ساتھ خوش اسلوبی سے چلنا انتہائی دشوار ہوگا۔
مصر کی معیشت بُری حالت میں ہے۔ملک میں سیاسی استحکام بھی مثالی نوعیت کا نہیں، مگر اس کے باوجود بیجنگ چاہے گا کہ مصر سے تعلقات بہتر بنائے، کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ بحیرئہ روم کے خطے میں قدم جمانے میں کامیاب ہوگا اور کم از کم ایک اہم بندرگاہ تک اس کی رسائی آسان ہو جائے گی۔ مصر کی حکومت چین کے جنگی جہازوں کو نہرسوئزتک بھی رسائی دے سکتی ہے۔ایسی کوئی بھی پیشکش چین کے لئے خاصی پُرکشش ہوگی، کیونکہ وہ بحیرئہ روم اور بحیرئہ اسود کے خطے میں اپنی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے حوالے سے خاصا فکر مند ہے۔
مصر سے تعلقات بڑھانے کی صورت میں چین کو امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی بھی آسانی سے مل جائے گی۔امریکی سفارت کار اس حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔وکی لیکس کے ذریعے سامنے آنے والے ایک کیبل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ چین کے فوجی افسران مصر میں ایف سولہ طیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور یہ اس دور کی بات ہے، جب حسنی مبارک اقتدار میں تھے اور واشنگٹن سے قاہرہ کے تعلقات بہت اچھے تھے،تب چین کا مصر میں عمل دخل برائے نام تھا۔اب حسنی مبارک نہیں رہے اور امریکہ کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ایسے میں چین کو مصر میں امریکی ٹیکنالوجی تک کتنی رسائی مل سکتی ہے،اس کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔
بدلتی ہوئی صورت حال میں مصر کے لئے چین بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔صدر مرسی اس بات کے خواہش مند ہیں کہ مصر کو مختلف ذرائع سے اقتصادی معاونت ملے، تاکہ معیشت متوازن رہے اور کسی ایک ملک یا خطے پر غیر معمولی انحصار کی صورت میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچنا بھی ممکن ہو۔چین جس راہ پر گامزن رہا ہے، وہ ایسی ہے کہ مصر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اسے کوئی خاص الجھن نہیں ہوگی۔اگر مصر میں میڈیا پر پابندیاں عائد ہوں، خواتین کے حقوق محدود کردیئے جائیں اور دیگر سخت گیر قسم کے اقدامات بھی کئے جائیں تو چین کے لئے قباحت کی کوئی بات نہیں۔چین کے پاس زرمبادلہ کے غیر معمولی ذخائر ہیں،اگر مصر میں سیکیورٹی کا مسئلہ حل ہو جائے تو چین کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کوئی مشکل کام نہ ہوگا۔
مصر کو مغرب کے حلقہ ءاثر سے نکال کر دیگر خطوں کی طرف متوجہ کرنا صدر مرسی کے لئے کوئی آسان کام نہیں۔ چین کے مزاج میں بھی سخاوت نہیں، وہ مصر میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے گا۔اس سے زیادہ قرضوں یا امداد کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔صدر مرسی چاہتے ہیں کہ خلیج کی ریاستوں پر غیر معمولی انحصار کے بجائے ایران سے بھی تعلقات بہتر بنائے جائیں، تاکہ کسی بھی مشکل صورت حال میں خطے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنا ممکن ہو.... مصر میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو کچھ ہورہا ہے، وہ امریکہ اور اسرائیل کو ناراض کرنے کے لئے کافی ہے۔دونوں ممالک اخوان المسلمون کی حکومت کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔اگر مصر کا جھکاﺅ چین کی طرف بڑھ گیا تو مشرقی ایشیا میں بھی امریکی پالیسی اور مفادات کو دھچکا لگے گا....(بشکریہ:”لاس اینجلس ٹائمز“) ٭