آئی ایس پی آر کو لیفٹیننٹ جنرل کی ضرورت
ایک زمانے تک پاکستانی فوج کا محکمہ تعلقاتِ عامہ بھی باقی دنیا کے فوجی رواج کے مطابق صرف اور صرف پیشہ ورانہ عسکری امور کی بابت ہی کبھی کبھار پریس ریلیز جاری کرنے کا کام کرتا تھا۔کبھی کوئی جنگ یا قدرتی آفت آتی تو پریس ریلیزز کی تعداد قدرے زیادہ ہو جاتی۔ یہ کام کوئی بہت زیادہ نہیں تھا اس لیے عموماً کرنل یا زیادہ سے زیادہ بریگیڈیئر لیول تک کا کوئی افسر آئی ایس پی آر کا سربراہ ہوا کرتا تھا۔مثلاً کرنل شہباز خان مئی 1949 تا جولائی 1952 آئی ایس پی آر کے پہلے سربراہ رہے۔ ان کے بعد کموڈور مقبول حسین اور پھر کرنل زیڈ اے سلہری نے خدمات انجام دیں۔یوں سمجھئے کہ پچھلے 66 برس میں دو کرنلوں، ایک لیفٹیننٹ کرنل، ایک کموڈور، چھ بریگیڈیئروں اور آٹھ میجر جنرلوں نے اس محکمے کی کمان کی۔ لیکن یہ تاریخ بھی رقم ہوگئی کہ آئی ایس پی آر کے موجودہ سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی ملی۔
جنرل ضیا الحق کے دور تک شعبہ تعلقاتِ عامہ میں اگرچہ روایت کے مطابق تینوں مسلح افواج کے افسر ڈیپوٹیشن پر کام کرتے تھے تاہم پوری افغان جنگ کے دوران ایک بریگیڈیئر رینک کا افسر ہی آئی ایس پی آر کو کمان کرتا رہا۔جب 17 اگست کو آئی ایس پی آر کے ڈی جی بریگیڈیئر صدیق سالک بھی جنرل ضیا الحق کے ہمراہ جاں بحق ہو گئے تو ان کی جگہ پہلی بار ایک میجر جنرل ریاض اللہ کو تعینات کیا گیا جنہوں نے دسمبر 88 سے ستمبر 91 تک خدمات انجام دیں۔90 کی دہائی میں جب انٹرنیٹ متعارف ہونا شروع ہوا اور اس کے طفیل رفتہ رفتہ روایتی خبری ذرائع کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی پیدائش شروع ہوئی تو ہر ادارے اور موقف کے مقابلے میں جوابی رائے، تجزیے اور تبصرے بھی عام ہونے لگے۔ روایتی سنسر شپ افادیت کھو بیٹھی۔ آئی ایس پی آر نے بھی آنے والے چیلنجوں کو پیشگی بھانپتے ہوئے محض روایتی پریس ریلیز کے دور سے نکل کے کھلے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا۔
پہلی بار صحافیوں کو فوج کے اندرونی معاملات تک غیر رسمی اور آف دی ریکارڈ رسائی ملنی شروع ہوئی۔ امیج میکنگ کی افادیت کو چابک دستی سے استعمال کرنے کا چلن شروع ہوا۔ آئی ایس پی آر نے بھی ان شعبوں میں دلچسپی لینا شروع کی جن سے بظاہر اس کا ماضی میں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔جیسے ٹی وی پر ’الفا براوو چارلی‘ سیریز سپانسر کی گئی اور پہلی بار عام ناظر کو اندازہ ہوا کہ فوجی بس دشمن سے لڑنے بھڑنے کے لیے نہیں بلکہ دیگر انسانوں کی طرح ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں، خانگی زندگی ہوتی ہے اور رومانس کی چاہ بھی۔گویا ایک سافٹ امیج پروموٹ کرنے کی یہ پہلی کامیاب کوشش تھی۔ اس کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل نے پاکستانی فضائیہ کے جوانوں کی روزمرہ اور پیشہ ورانہ زندگی پر مبنی ڈراما سیریز ’شہپر‘ کے نام سے پیش کی۔ پی ٹی وی پر پیش ہونے والا ڈراما ’پی این ایس غازی‘ بھی خاصا مقبول ہوا۔
جوں جوں میڈیا کی پہنچ تیز ہوتی چلی گئی توں توں آئی ایس پی آر کا کام بھی بڑھتا چلا گیا۔ فلم کے پاپولر کلچر سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا گیا اور پچھلے دس برس کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نظریے پر مبنی کئی فیچر فلموں کیلیے مختلف ظاہری اور غیر ظاہری ذرائع سے سپانسرشپ مہیا ہوئی۔ ان میں سب سے نمایاں نام ’وار‘ ہے۔جسے شائقین نے اتنا پسند کیا کہ اب ’وار ٹو‘ زیرِ تکمیل ہے۔نفسیاتی جنگ کی اصطلاح تو دوسری عالمی جنگ کے دوران عام ہوئی جب جرمن اور اتحادی ایک دوسرے کے خلاف خام شکل میں پروپیگنڈا کرتے تھے۔ لیکن اب پروپیگنڈا شکر میں گھول کر پلانے کا زمانہ ہے تاکہ ابکائی نہ آئے۔ اپنی بات پہنچانے کیلیے اخبار اور ٹی وی پروڈکشن سے کہیں زیادہ موثر ہتھیار سوشل میڈیا بن چکا ہے۔
چنانچہ اس ڈیجیٹل حملے کے توڑ کے لیے جدید سوچ اور ہتھیار درکار ہیں۔ ضرورت ہے کہ ٹوئٹر بازوں کی فوجِ ظفر موج کی سرپرستی کی جائے بلکہ فیس بک پر دیگر ناموں سے بیسیوں ایسے سویلین پیجز کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے جو 24 گھنٹے غیر رسمی وکیل اور ترجمان کا رضاکارانہ کردار نبھاتے رہیں۔چونکہ نئی نئی آزادی چکھنے والا میڈیا عموماً ناتجربہ کار اور بے لگام ہوتا ہے اسی لیے کسی حد تک اناڑی بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ نیوز روم اور سکرینی چہروں پر سافٹ کنٹرول رکھنا ایک علیحدہ سائنس ہے۔ اور اس سائنس میں وہی آگے ہو سکتا ہے جس کے ایک ہاتھ میں چِھتر اور دوسرے میں گاجر ہو۔یہ دلوں اور دماغوں کو جیتنے یا انھیں غیر جانبدار کرنے کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں سب سے پہلی ہلاکت حقائق کی ہوتی ہے۔آدھی جنگ ان حقائق کو متزلزل یا کنفیوز کرنے کا نام ہے اور باقی آدھی لڑائی ذہنوں کو خوف زدہ کر کے کوئی بات کہنے سے پہلے دس بار سوچنے کی عادت ڈالنے کے بارے میں ہے۔
پروپیگنڈا کے جدید ہتھیاروں اور حکمتِ عملی کے ذریعے نہ صرف شور کنٹرول کیا جا سکتا ہے بلکہ میڈیا بھی اس شیر کی طرح ہو جاتا ہے جس کی غراہٹ تو باقی رہے مگر دانت نہ رہیں۔ امریکی صحافت نائن الیون کے بعد سے بالخصوص اسی دور سے گزر رہی ہے۔اس آرٹ کو رائے سازی کہتے ہیں، اور رائے سازی کا شمار مہنگی صنعتوں میں ہوتا ہے۔ اسی لیے نہ صرف کروڑوں کا بجٹ درکار ہے بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی اور تکنیکی افرادی قوت کی بھی اشد ضرورت ہے۔اس تناظر میں صرف آئی ایس پی آر ہی کیا، ہر وہ ادارہ جو رائے کے سیلاب کو اپنی مرضی کے بند سے گزارنا چاہتا ہے توسیع کا طالب اور متقاضی ہے۔لہٰذا آج آئی ایس پی آر جیسے ادارے چلانا ’ کلے کرنل دا کم نئیں۔‘ یہ بٹالین اب کور ہو چکی ہے اور کور کمانڈر کے لیے کم ازکم لیفٹیننٹ جنرل ہونا تو بنتا ہے۔