عالمی منڈی میں قیمت گرنے کے باعث۔۔۔۔۔۔ چاول کی برآمدات کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت!
عرفان یوسف
موڈیز کی نائب صدر انوشکا شاہ کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی رہ داری منصوبے سے پاکستان میں تیزی سے معاشی ترقی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب موڈیز نے پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے کہ وہ مالیاتی خسارہ کے اہداف حاصل کرنے اور زرمبادلہ کے زخائر بڑھانے کی ہرممکن کوشش کر رہا ہے پاکستان کی ریٹنگ کو جون میں ہی بی تھری کیا گیا ہے اس لئے ابھی یہی ریٹنگ برقرا رکھی جائے گئی موڈیز نے کچھ عرصے قبل ہی پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح 4 اعشاریہ 1 فیصد رہے گی جبکہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اب معاشی ترقی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب انھوں نے اس خدشہ کا اظہار بھی کیا کہ شرح سود میں مسلسل کمی کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے حکومت کی عدم توجہ کے باعث چاول کے کاشتکار اور چاول کے برآمد کنندگان شدید مشکلات اور مالی بحران کا شکار ہیں۔بین الاقوامی اور مقامی سطح پر چاول کی قیمتیں تیزی سے گر رہی ہیں، چاول کے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کا زرعی ریلیف پیکج نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ کاشت کاروں کے مطابق رواں سال عالمی اور مقامی سطح پر چاول کی گرتی قیمتوں کے باعث کسانوں کو فی ایکڑ تیس ہزار روپے نقصان پہنچا، جو حکومت کے زرعی پیکج کے تحت فی ایکڑ پانچ ہزار روپے امدادی قیمت کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے، چاول کی نئی فصل کی قیمت گذشتہ سال کے مقابلے میں تیس فیصد کم ہے، کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان چاول کی برآمد میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے جو بڑے پیمانے پر ایران، چین، متحدہ عرب امارات اور افریقی ممالک کو چاول برآمد کرتا ہے، لیکن گرتی قیمتوں کے باعث بین الاقوامی تاجر خریداری سے کترا رہے ہیں پاکستان میں چاول کی کل پیداوار تقریباً6.5ملین ٹن ہے جس میں سے تقریباً4ملین ٹن ہم روایتی اور غیر روایتی طور پر برآمد کرتے ہیں لیکن عالمی مارکیٹ میں کساد بازاری اور گرتی ہوئی قیمتوں کے باعث ہم بھارت تھائی لینڈ اور ویت نام سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ بھارت موثر منصوبہ بندی، چاول کے کاشتکاروں اور برآمدکنندگان کو سہولتیں فراہم کر کے چاول کی برآمدات کو مسلسل بڑھا رہا ہے جس سے ہماری منڈیاں بھی وہ ہم سے چھین رہا ہے۔ جبکہ پاکستان میں حکومت کی عدم توجہی اور ایک موثر پالیسی نہ ہونے کے باعث چاول کے کاشتکاروں اور برآمدکنندگان کو شدید نقصان ہو رہا ہے پہلے سے سرپلس فصل گوداموں میں موجود ہے جبکہ نئی فصل سر پر کھڑی ہے۔ ایکسپورٹرز نے بنکوں سے قرض لے کر مونجی کی خریداری کی ہوئی ہے اور اب وہ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے اور نہ ہی بنکوں کو رقوم اور انٹرسٹ واپس کرنے کے قابل ہیں چاول کے برآمدکنندگان سبسڈی فراہم کرے علاوہ ازیں حکومت دوست ممالک جیسا کہ سعودی عرب، ایران، انڈونیشیا، کینیا جہاں سے ہم بڑی مقدار میں چائے کی پتی درآمد کرتے ہیں اور دیگر ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے چاول کی برآمدات کے لئے موثر اور موافق مواقع پہنا کرے چاول کی برآمدات دوسری بڑی ملکی برآمدات ہیں جب تک ہمسایوں کے ساتھ تجارت کو فروغ نہیں دیا جائے گا تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے حکومت، سعودی عرب، ایران، افغانستان میں چاول کی برآمدات کے خصوصی انتظامات کرے تو کافی مسائل حل ہو جائیں گے علاوہ ازیں بیرونِ ممالک سفارتخانوں میں تعینات کمرشل اتاشیوں کی تقرری میرٹ اور حب الوطنی کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے جو صحیح معنوں میں کمرشل اتاشی کا کردار ادا کر سکیں رائس ایکسپورٹر زایسوسی ایشن آف پاکستان نے حکومت کی جانب سے آئندہ مونجی کیلئے مقرر کردہ سپورٹ پرائس کو مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ عالمی منڈی میں موجودہ قیمتوں کے مطابق ایک من نئی باسمتی 386 کی مونجی 700روپے من اور سپر باسمتی کی مونجی 800روپے سے 900روپے من تک خریدیں گے ۔ اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کئے گئے تو رائس انڈسٹری بند کر دیں گے اور مونجی کے کاکاشتکاروں سے ہرگز خریداری کریں گے ۔ عالمی منڈی میں قیمتیں گرنے کے باعث چاول کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اس لئے حکومت 2013-14ء اور 2014-15ء کے دوران مونجی کی خریداری کے لئے حاصل کئے جانے والے قرضوں پر مارک اپ ختم کرے ۔ ایکسپورٹ ری فنانس مدت 180دنوں کی بجائے بڑھا کر 360دنوں تک مقرر کی جائے ۔ ود ہولڈنگ ٹیکس ایک فیصد کی بجائے 0.25فیصد مقرر کیا جائے ۔ حکومت نے جن ممالک سے آزادانہ تجارت کے معاہدے کئے ہیں ان معاہدوں پر نظر ثانی کر کے ان میں چاول کو بھی شامل کیا جائے چاول کی نئی فصل مارکیٹ میں آنے والی ہے اگر حکومت نے ہمارے مذکورہ بالا مطالبات منظور نہ کئے تو پھر ہم کسانوں سے چاول نہیں خرید سکیں گے ۔ ملک میں پہلے سے 4سے 5لاکھ ٹن چاول کا سٹاک موجود ہے اسے نکالنے کے لئے حکومت ہماری تجاویز پر عملدرآمد کرے ۔ ہم نے وفاقی وزیر تجارت کو یہ تجاویز ارسال کر دی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایران سے بجلی کی خریداری کے عوض اسے چاول مہیا کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ریپ نے باسمتی چاول کا قانون بنا کر حکومت کو ارسال کر دیا ہے حکومت اسے نافذ کرے اس سے بھارت کہیں بھی باسمتی چاول کو رجسٹرڈ نہیں کرا سکے گاکہ رائس ملوں کے یوٹیلٹی بلز پر جی ایس ٹی ختم کیا جائے ۔جبکہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر زآف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی )کے ریجنل چےئرمین خواجہ ضرار کلیم کہ اگر حکومت نے چاول بحران پر قابوپانے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو دھان کی فصل کوڑیوں کے بھاؤ بکے گی جس سے کسان تباہ و برباد ہوگا اور ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔کاشت سے لیکر ایکسپورٹ تک پالیساں ترتیب دینے اور ان پر عملدآمد کرانے کیلئے حکومتی سطح پر ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جس میں زمیندار،رائس ڈیلرز، ایکسپورٹرز، حکومتی نمائندے شامل ہوں تاکہ رائس ایکسپورٹر کے مسائل کم کئے جا سکیں۔ وزیراعظم کسان ریلیف پیکج میں رائس ملرز کے لئے کوئی بھی ریلیف نہیں رکھا گیا۔رائس ملوں میں موجود تقریبا 5 لاکھ ٹن سپر باسمتی چاول گوداموں میں پڑا ہے جس کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ اگر ایک ہفتے کے اندر چاول مارکیٹ سے اٹھانے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو پورے پاکستان کی رائس شیلر انڈسٹری غیر معینہ مدت تک بند کر دی جائے گی اورکسان اور رائس ملرز سٹرکوں پر ہوں گے اور یہ حکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنچ ہو گا۔ فوری طور پر رائس ملوں سے پانچ لاکھ ٹن چاول سپر باسمتی پاسکو کے ذریعے خرید کرکے ایکسپورٹ کیا جائے۔ پاکستان رائس ملز ایسوسی ایشن کے وائس چےئرمین فیصل مقصود چیمہ کا کہنا ہے کہ چاول کی قیمت میں 60فی صد کمی کی وجہ سے 90فی صد رائس ملرز مالیاتی اداروں کے ڈیفالٹرہو چکے ہیں۔ پاسکوچاول کی خریداری کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کر رہا جس کی وجہ سے کسان ، رائس ملرز تباہ حالی کے خطرہ سے دوچار ہیں پاکستان کی معیشت پر تجزیاتی رپورٹ کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے کیا گیا ہر وعدہ پورا کیا پاکستان مالیاتی خسارہ کے اہداف حاصل کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی بھی ہرممکن کوشش کر رہا ہے۔ رواں سال ماہ جولائی میں خدمات کے شعبے کے تجارتی خسارے میں 123فیصد بہتری آئی۔جولائی 2014میں خدمات کے شعبے میں 383.33ملین ڈالرخسارہ ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ جولائی 2015میں یہ خسارہ 89.57ملین ڈالرسرپلس میں تبدیل ہو گیا محکمہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2015کے دوران خدمات کی برآمدات میں 93.92فیصد اضافہ ہوا،جو کہ گزشتہ سال کے ماہ جولائی میں 350.92ملین ڈالر کی نسبت رواں سال ماہ جولائی میں بڑھ کر 680.51 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ رپورٹ کے مطابق جائزہ دورانیہ مدت کے دوران خدمات کی درآمدات 19.52فیصد کمی کیساتھ جولائی 2014میں 734.25ملین ڈالر سے کم ہو کر جولائی 2015میں 590.94ملین ڈالر کی سطح پر آ گئیں۔اس طرح ماہانہ بنیادوں پر رواں سال جولائی میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران خدمات کے شعبے میں خسارہ 118.68فیصد کم ہو گیا۔ جون 2015کے دوران تجارت کا توازن 479.37ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ جون 2015 میں خدمات کی برآمدات 391.11ملین ڈالر سے بڑھ کر 680.51ملین ڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ درآمدات 870.48ملین ڈالر سے کم ہو کر 590,94ملین ڈالر کی سطح پر آ گئیں رواں سال ماہ جولائی میں خدمات کے شعبے کے تجارتی خسارے میں 123فیصد بہتری آئی۔جولائی 2014میں خدمات کے شعبے میں 383.33ملین ڈالرخسارہ ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ جولائی 2015میں یہ خسارہ 89.57ملین ڈالرسرپلس میں تبدیل ہو گیا۔منگل کو محکمہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2015کے دوران خدمات کی برآمدات میں 93.92فیصد اضافہ ہوا،جو کہ گزشتہ سال کے ماہ جولائی میں 350.92ملین ڈالر کی نسبت رواں سال ماہ جولائی میں بڑھ کر 680.51 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ رپورٹ کے مطابق جائزہ دورانیہ مدت کے دوران خدمات کی درآمدات 19.52فیصد کمی کیساتھ جولائی 2014میں 734.25ملین ڈالر سے کم ہو کر جولائی 2015میں 590.94ملین ڈالر کی سطح پر آ گئیں۔اس طرح ماہانہ بنیادوں پر رواں سال جولائی میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران خدمات کے شعبے میں خسارہ 118.68فیصد کم ہو گیا۔ جون 2015کے دوران تجارت کا توازن 479.37ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ جون 2015 میں خدمات کی برآمدات 391.11ملین ڈالر سے بڑھ کر 680.51ملین ڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ درآمدات 870.48ملین ڈالر سے کم ہو کر 590,94ملین ڈالر کی سطح پر آ گئیں۔پاکستان کی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے مفلوج ہوکر رہ گئی ۔ بیرونی قرضہ جات غربت کو مٹانے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں بیرونی قرضہ جات کا حجم 65ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے حکومتوں کی جانب سے حاصل کئے گئے قرضوں کی قانونی حیثیت پر فیصلہ کرنے کے لئے ایک خود مختار آڈٹ کمیشن قائم کیا جائے ۔غیر سرکاری تنظیم اسلامک ریلیف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے مفلوج ہوکر رہ گئی ہے بیرونی قرضہ جات غربت کو مٹانے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں پاکستان کے بیرونی قرضہ جات تقریباً 65ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں پاکستان کے قرضہ جات کی قانونی حیثیت ایک سوالیہ نشان ہے اور اس بات پر بھی مصر ہے کہ 1947ء سے لے کر آج تک کے بیرونی قرضہ جات کا آڈٹ کیا جائے اور اس حقیقت کو منظر عام پر لایا جائے کہ کون سے قرض ادا ہونے چاہیں اور کون سے ایسے قرض ہیں جو منسوخ ہونے چاہیں قرضوں کی واپسی کابڑھتا ہوا بوجھ غربت کے خاتمے و ملکی اقتصادی استحکام اور خود مختاری کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔یکسپورٹس کے ساتھ درآمدات بھی سست روی کا شکار ہورہی ہیں ، رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں برآمدات گزشتہ سال کے مقابلے 10 فیصد گراوٹ کا شکار ہوگئیں۔وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال ایکسپورٹس اور امپورٹس کے حجم میں گزشتہ سال کے مقابلے کمی دیکھی جا رہی ہے۔ جولائی تا اگست 2015 برآمدات 10 فیصد کمی سے 3 ارب 43 کروڑ ڈالر رہی جبکہ اسی عرصے میں امپورٹس 9 فیصد کمی سے 7 ارب ڈالر کے قریب رہیں ،اس طرح ایکسپورٹس کے مقابلے زائد امپورٹس جسے تجارتی خسارہ بھی کہا جاتا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خام تیل سمیت اجناس کی گرتی قیمتوں کے باعث تجارتی حجم میں کمی آرہی ہے۔دوسری جانب ایکسپورٹس کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے صنعتی شعبے کو سستے قرضے فراہم کرنے کے ساتھ حکومت پیداواری لاگت میں کمی کے اقدامات کرے ۔