وزیر اعظم پاکستان کسان ریلیف پیکج زرعی انقلاب کی طر ف مثبت قدم
اسد اقبال
بر اعظم ایشیاء میں زرخیز زمین کے حوالے سے پاکستان کو خاص اہمیت حاصل ہے جہاں پر فصلوں کی پیداور دیگر ممالک کی سے زیادہ کے پیش نظر پاکستان میں زرعی زمین سو نا اگلتی ہے کہ حوالے سے معروف ہے۔پاکستان میں گندم ،چاول ،کپاس اور کماد کی بڑی فصلوں کی پیداورا سمیت دیگر تمام سبزیو ں و پھلوں کی پیداورا ہو تی ہے۔جس کو بڑے پیمانے پر برآمد کر کے ملکی زرمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے ۔پاکستان میں 65فیصد سے زائد آبادی واسطہ اور بالواسطہ زراعت سے وابستہ ہے ۔زرعی شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 21فیصد ہے جبکہ ملکی برآمدات کا 63فیصد انحصار بھی زراعت پر ہے۔ زراعت کا شعبہ حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست رہا ہے اور حکومت کی کسان دوست پالیسیوں کے نتیجہ میں 2007-08سے اب تک اہم فصلوں کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ زرعی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی آج بھی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ عالمی سطح پر نامساعد حالات کی وجہ سے پاکستان میں کاشتکاروں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر دھان اور کپاس کے کاشتکار عالمی سطح پر گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کاشتکاروں کے مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت سے مسلسل رابطہ قائم رکھا جس کے نتیجہ میں وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے 15ستمبر 2015ء کو اسلام آباد میں منعقدہ کسان کنونشن میں کاشتکاروں کیلئے 341 ارب روپے کے تاریخی زرعی پیکج کا اعلان کیا۔ کاشتکاروں کیلئے اس خصوصی ریلیف پیکج کے تین بنیادی حصے ہیں۔ اولاً بین الاقوامی منڈیوں میں اناج کی گرتی قیمتوں اور ہونے والے نقصان کے ازالہ کیلئے کپاس اور چاول کے کاشتکاروں کو فوری مالی امداد کی فراہمی ہے جن کو اس پیکج کے تحت 5000روپے فی ایکڑ مالی امداد دی جائے گی۔ چھوٹے کاشتکاروں کی سہولت کیلئے ان کے ٹیوب ویلوں کے بلوں کی ادائیگی کی مدت میں 31دسمبر 2015ء تک توسیع کردی گئی ہے۔ چاول کی نئی فصل کی خرید ممکن بنانے کیلئے چاول کے تاجروں کو قرضوں کی واپسی کی مدت میں بھی 30جون 2016تک توسیع کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چاول کے تاجروں کے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے 2015-16کیلئے ٹرن اوور ٹیکس کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ اس تاریخی زرعی پیکج کے دوسرے حصہ میں اہم فصلوں کی پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے متعدد اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے جن میں زرعی مشینری کی درآمد پر ٹیکسز 43فیصد سے کم کرکے صرف 9فیصدکر دیئے گئے ہیں۔ زرعی اجناس پھلوں، سبزیوں اور مچھلی کی تجارت کیلئے کولڈ چین کی حوصلہ افزائی کیلئے اس میں تین سال کیلئے ٹیکس پر چھوٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔ زمین کی تیاری، زرعی مشینری، فصل کی کاشت، کٹائی، آب رسانی، نکاسی آب اور ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال ہونے والی مشینری کی درآمد او رمقامی خریداری پر سیلز ٹیکس 17فیصد سے کم کرکے صرف 7فیصد کردیا گیا ہے جبکہ حلال گوشت کی مقامی تجارت اور برآمد کی حوصلہ افزائی کیلئے حلال گوشت کے جدید پیداواری پلانٹ کو 4سال تک انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ تازہ دودھ، پولٹری اور مچھلی کی مشروط سپلائی پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں بھی چھوٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کیلئے سولر ٹیوب ویل کی تنصیب کیلئے 14.5ارب روپے سے بلاسود قرضہ جات کی فراہمی بھی اس تاریخی پیکج کا حصہ ہے ۔ 14 ارب روپے سے ٹیوب ویلز کیلئے بجلی کی رعایتی نرخوں کے اعلان کے مطابق ’’پیک آورز میں بجلی کی قیمت 10.35 روپے فی یونٹ اور’’ آف پیک آورز‘‘ میں 8.85روپے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔اس پیکج کے تحت 20 ارب روپے سے پوٹاشیم اور فاسفیٹ کھادوں کی قیمت میں فی بوری 500روپے کمی کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ یوریا کھاد پر فی بوری 200روپے کی فوری کمی کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اس پیکج کے تیسرے اہم حصہ میں زرعی قرضوں میں اضافہ اور ان کی فراہمی کو آسان بنایا گیا ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کیلئے زرعی قرضہ جات میں 100 ارب روپے کا مزید اضافہ کیا گیا ہے جبکہ زرعی اراضی کے پیداواری یونٹ کی ویلیو 2000روپے سے بڑھا کر 4000روپے مقرر کی گئی ہے جس کی بدولت کاشتکار اب موجودہ زمین پر دو گنا قرضہ حاصل کر سکیں گے ۔ قرضوں پر مارک اپ کی شرح میں بھی 2 فیصد کمی کا اعلان کیا گیا ہے ۔وزیر اعظم کے اس پیکج کے تحت 2.5 ارب روپے سے زرعی قرضوں کی مفت انشورنس کا انقلابی پروگرام بھی شروع کیا جا رہا ہے ۔جس کے تحت چھوٹے کاشتکاروں کو زرعی قرضہ دینے والے کمرشل اور مائیکرو فنانس بنکوں کیلئے 30 ارب روپے سے 50فیصد نقصان کی گارنٹی سکیم کے تحت 5ایکڑ نہری اور 10 ایکڑ بارانی زمین کے مالک 3لاکھ کسانوں کو بغیر سیکورٹی ایک لاکھ روپے تک کا قرضہ فراہم کیا جا سکے گا۔ وزیر اعظم پاکستان کے زرعی پیکج کو زرعی ماہرین، کاشتکار تنظیموں کے نمائندوں اورچھوٹے کسانوں نے سراہا ہے