ہندو طالبان

بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔پاکستان کو سیکولر آئین کا طعنہ دینے والی مودی سرکارنے مذہب کے نام پر مسلمانوں سمیت تما م اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن بنا کر رکھ دیں۔متعصبانہ قوانین کی بابت اس وقت پورا بھارت عدم برداشت اور ہندو انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے۔ بی جے پی کی حکومت کو اگر’’ہندوطالبان‘‘ کی حکومت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
وزیراعظم نریندر مود ی کے چھتر چھایہ میں بننے والی بی جے پی کی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی ہندو برہمی نظریات کے دوبارہ احیاء اورسیکولرو تکثیری معاشرے کوہندو مت میں تبدیل کرنے کی تحریک شروع کر دی ۔مودی سرکار نے ہندوانہ نظریات اور سخت گیریت کو فروغ دینے میں کسر روا نہیں رکھی۔ 1992ء میں ریاست اترپردیش کے ضلع ایودھیا میں شہنشاہ بابر کے دور میں تعمیر کی گئی بابری مسجد کوبی جے پی حکومت کی سرپرستی میں شہید کر دیا گیا ۔ یہ سانحہ اچانک رونما نہیں ہوا تھا۔ طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت بی جے پی رہنما ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں سخت گیر انتہا پسند تنظیموں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سیناکو یکجا کر کے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لئے تحریک چلائی گئی۔انتہا پسند و ں کو ریٹائرڈ فوجیوں سے تربیت دلوا کر ان کی ذہن سازی کی گئی اور انہیں بابری مسجد شہید کرنے پر اکسایا گیا۔انتہا پسندوں کا دعویٰ تھا کہ یہ جگہ ہندو دیوتا رام کی جنم بھومی ہے۔ مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے جس میں 2000 سے زائد نہتے اور معصوم مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ 1998ء میں بی جے پی کے پہلے دور حکومت میں انتہا پسندانہ اور امتیازی پالیسیوں کے باعث ایٹمی جوہری دھماکے، عیسائیوں پر ظلم و ستم، گجرات میں مسلمانوں کی خونریزی اوربھارت اسرائیل کے بڑھتے تعلقات نے جب خطرے کی گھنٹی بجا ئی تو پاکستان کو دفاعی پالیسی اختیار کرنا پڑی۔
بی جے پی کی حکومت کے دور میں ریاست گجرات میں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ اور انتہا پسند ہندو ذہنیت کے حامل وزیراعلیٰ نریندر مودی کی سرپرستی میں مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔ فروری 2002ء میں ایودھا سے گجرات جانے والی ٹرین کی ایک بوگی کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر شرپسندوں نے آگ لگا دی جس کے نتیجے میں 60 ہندو یاتری جل مرے۔ اس کا الزام مسلمانوں پر دھر دیا گیا۔ زہریلی منصوبہ کے تحت انتہا پسند ہندوؤں نے ریاست بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول بھڑکا دیا۔ جنونی ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے۔ خواتین کی عصمت دری ، بچوں کی آتش زنی اور نوجوانوں کو تلواروں سے کاٹا گیا۔ دو ماہ تک قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا، 2000سے زائد گھر اور کاروبار پر تیل چھڑک کر جلا دیا گیا اور360عبادت گاہیں مسمار کر دی گئیں۔ ان فسادات سے ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کو ریاست گجرات سے ہجرت کرنا پڑی۔2005ء میں مرکزی حکومت کی تفتیش نے مودی اور اس کے کارندوں کا کچا چھٹا طشت ازبام کر دیااور گودھرا واقعہ سے مسلمان بری الذمہ قرار پائے۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام آج تک تخریب کار نریندر مودی کے چہرے پر سیاہ دھبہ ہے۔
2014ء کے انتخابات میں بی جے پی نے کامیابی کے لئے پاکستان کارڈ کھیلا اور ووٹروں کا دل جیتنے کے لئے ارض پاک اور مسلمانوں کے خلاف جی بھر کر زہر اگلا۔ پاکستان اور مسلم مخالف جذبات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر دیں اور عوام سے ووٹ بٹورے۔ 2015ء میں جمہوری اور سیکولر ہونے کے دعویدار بھارت کے متعصب حکمرانوں کا اصلی چہرہ اس قت کھل کر سامنے آگیا جب ہندوستان کی 29میں سے 24ریاستوں میں گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی، گائے ذبح کرنے پر 5سال قید اور 50ہزار جرمانے کی سزا بھی مقرر کر دی گئی۔ گائے کے ذبیحے پر پابندی کی آڑ میں مسلمانوں کو تنگ کیا جانے لگا۔ گوشت کھانے اور فروخت کرنے کے الزام میں انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ۔ مسلمانوں کے لئے ہندوستان کی زمین تنگ کر دی گئی۔ 28ستمبر 2015ء کو اتر پردیش کے علاقے دادری میں انتہا پسند ہندوؤں نے ایک مسلمان 50سالہ محمد اخلاق پر گوشت فروخت کرنے اور کھانے کے شبہ میں تشددکا نشانہ بنایا اوراینٹوں سے مار مار کر قتل کر دیا گیا ۔تشدد کے دوران اس کا 22سالہ بیٹا بھی شدید زخمی ہوا ۔ریاست مدھیہ پردیش میں گائے کا گوشت ساتھ رکھنے کے الزام پر ہندو انتہا پسندوں نے 2خواتین کوبہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ نریندر مودی کی حکومت کے دوران بھارت میں مذہبی تقسیم میں شدت آئی ہے۔
کئی عشروں سے فلموں کے ذریعے بھارت کا’’خوبصورت‘‘ چہرہ دنیا بھر میں متعارف کرایا جاتا رہا لیکن گذشتہ چند ماہ میں ہونے والے واقعات کے بعد بھارت کا ’’بدنما‘‘ چہرہ اقوام عالم میں روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے۔ممبئی ،پٹھان کوٹ اور اڑی حملوں کا الزام پاکستان پر لگا کر بالی ووڈ میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں غلام علی، راحت فتح علی خان، فواد خان، علی ظفر، عاطف اسلم، شکیل صدیقی، ماورا حسین، عمران عباس، مائرہ خان سمیت دیگر کو دھمکیاں دی گئیں ،ان کے پروگرام بند کر دیئے گئے، فلمیں ریلیز ہونے سے روک دی گئیں، کنسرٹ منسوخ کر دیئے گئے۔ اڑی واقعہ کے بعد تو یوں لگتا ہے کہ پورا بھارت ہی پاگل ہو گیا ہے۔ سرکار، میڈیا، سیاستدان سب زہر اگل رہے ہیں۔ انتہاء پسند محبت کے سفیروں کیخلاف نفرت میں جل بھن گئے۔ اور تو اور بالی ووڈ فنکاروں شارخ خان، عامر خان سمیت دیگرکو بھی معاف نہیں کیا گیا۔
پاکستان اور مسلمانوں سے دشمنی میں بھارت سفارتی آداب بھی بھول گیا۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی دھمکیوں کے باعث تقریب میں شرکت سے روک دیا گیا۔ عبدالباسط کو ناگپور میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی۔ پاکستانی ہائی کمشنر کو بھارت میں کسی تقریب سے روکے جانے کا یہ چوتھا واقعہ ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہر یار خان بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی دعوت پرکرکٹ تعلقات کی بحالی کے لئے مذاکرات کے لئے بھارت گئے اس موقع پر شیو سینا کے بلوائیوں نے شد ید نعرہ بازی کی اور شہر یارخان کے خلاف واپس جاؤ کے نعرے لگائے۔اس سے قبل چیئرمین پی سی بی کی ممبئی آمد پر شیو سینا کے غنڈوں نے بھارتی کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بول دیا جس کی وجہ سے شہریار خان کی بھارتی حکام کے ساتھ ملاقات کو ممبئی سے نئی دلی میں خفیہ مقام پر منتقل کرنا پڑا۔
کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے مسلمان رکن انجینئر راشدانتہا پسند ہندوؤں کے حملہ میں زخمی نوجوان زاہد کی عیادت کے لئے نئی دہلی گئے۔ احتجاج کے لئے پریس کلب پہنچے وہاں پر شیو سینا کے بلوائیوں کے حملے کا نشانہ بن گئے ۔ انہیں پہلے زدو کوب کیا اور پھر ان کے چہرے پر سیاہی پھینک دی تھی۔ اس سے قبل بھی گھر میں بیف پارٹی کرنے پر اسمبلی کے اندر حکمران جماعت بی جے پی کے ارکان نے ان پر دھاوابول دیا تھا اور شدید زد و کوب کیا۔ سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی رونمائی کی تقریب کی میزبانی کرنیوالے سدھندر کلکرنی کی تضحیک نے بھارت کے جمہوری اور سیکولر چہرے کو بے نقاب کر دیا۔ تقریب رونمائی کی میزبانی کرنے پر شیو سینا کے غنڈوں نے ان کا منہ کالا کر دیا لیکن کلکرنی اپنا منہ صاف کرنے کے بجائے کیمرے کے سامنے میزبانی کے فرائض نبھاتا رہا ۔ کشمیری رہنما افضل گرو کی پھانسی کی برسی کے موقع پر منعقدہ ریلی میں بھارت مخالف نعرے لگانے کے الزام میں دہلی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طلبا تنظیم کے صدر کنہیا کمار کو گرفتار کر لیا گیا۔ غداری کے مقدمے میں گرفتار کنہیا کمار کا کہنا تھا کہ ہمیں آر ایس ایس سے حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ نہیں چاہیے۔گرفتاری سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آزادی رائے کے ڈھول کا پول کھل گیاہے۔
جہاں بھارت کی حکمران جماعت اور دائیں بازو کے انتہا پسند عدم برداشت کے فروغ میں ملوث ہیں وہیں بھارت کی سول سوسائٹی بھارتی حکومت کی رجعت پسندی کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی۔ بی جے پی حکومت کی سخت گیریت کے خلاف بھارت کے 200 سے زائد سرکردہ فلم ساز، قلم کار، ادیب، سائنسدان اور مورخین نے اپنے ایوارڈز حکومت کو واپس کر کے حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ بھارت میں بسنے والے مسلمان اور دوسری اقلیتیں تو عرصہ دراز سے ہندو انتہا پسندوں کے مظالم کا شکار ہیں۔ صرف اسی پر بس نہیں، اب نسلی بنیادوں پر دیگر ممالک کے باشندوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ چھترار پور گاؤں میں آدھے گھنٹے کے دوران انتہا پسند ہندوؤں کے4 حملوں میں 7افریقی طالب علم زخمی کردیئے، جس کے بعد 42افریقی سفیروں نے اپنی حکومت کو مزید طلبا بھارت نہ بھیجنے کا مشورہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حالات ساز گار ہونے تک بھارت میں موجود تمام افریقی طالب علموں کو واپس بلا لیا جائے۔ حملوں سے ایک ہفتہ قبل انتہا پسندوں نے ایک افریقی طالب علم کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ یہ ہی سیکولر بھارت کا اصل چہرہ ہے۔
21ستمبر 2016ء کو جب وزیراعظم نواز شریف نے عالمی پنجائیت کے سامنے مسئلہ کشمیر پر بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا تو موددی اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے، پاکستان دشمنی کے بخار میں مبتلا بھارتی سدھ بدھ کھو بیٹھے۔ بھارتی انتہا پسند تنظیم نے وزیراعظم نواز شریف کا سر کاٹ کر لانے والے کے لئے ایک کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کر دیا۔اس پر بھارتی میڈیا نے باؤلا ہو کر اخلاقیات اور تہذیب کا بھی سر قلم کر دیااور بیان کو براہ راست نشر کرتا رہا۔یہ اعلان گیدڑ بھبھکیاں دینے والا وہ بھارت کر رہا ہے جو ممبئی ، پٹھانکوٹ اور اڑی ہیڈکوارٹرز پر حملہ آوروں کو تو روک نہیں سکا۔ ان حملوں میں نہ صرف کرنل سطح کے بھارتی افسر مارے گئے بلکہ بھارت کی معیشت کو اتنا گہرا زخم لگا کہ وہ اسے کئی برسوں تک پورا نہیں کر پائے گا۔ پاکستانی وزیراعظم کے سر کی بات کرنے والے پہلے اپنے سر تو بچا لیں۔ پاکستانی قوم متحد ہے وہ اپنے وزیراعظم اور شہریوں کا سر بچانا جانتے ہیں ۔اگر ہندوستان یہ سوچ رہا ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔
پاکستان دشمنی میں اندھا بھارت سفارتی محاذ پر شکست کے بعد آبی جارحیت پر اتر آیا ہے۔اڑی حملہ ڈرامے پر کچھ حاصل نہ ہوا تو بھارت نے سندھ طاس معاہدے کا نیا ڈرامہ رچا لیا۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب کا پانی روک لیا ہے اور پاکستانی سر زمین کو بنجر کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ لیکن پاکستان بھی اس کا بھرپور جواب دے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ عالمی برادری بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ انتہا پسندی کو روکے‘ دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر انتہا پسندوں کے حملے بند کرائے اور ذات پات نسل و مذہب کی متعصبانہ تفریق چھوڑ دے ورنہ بھارت کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کی بربادی دور کی بات نہیں۔