موت ہمت کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے

موت ہمت کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے
موت ہمت کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ابھی وہ بہت ہی چھوٹا تھا تو اس کا رجحان ‘ دھیان‘ دین‘ نعت اور نمازوں کی جانب ہو گیا تھا۔ قدرت نے عقیل کو اپنی عمر کی نسبت سے زیادہ قد و قامت سے نوازا تھا۔ محنتی ‘ ذہین‘ وفادار‘ فرمانبردار اور جانثار اتنا کہ ہر کوئی اُس کا دم بھرتا‘ نام لیتا اور مثال دیتا تھا۔ لیکن قدرت و قادر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میرابی ایس سی کا طالبِ علم ‘ پیارا پھول سا بھانجا عقیل قیصر اچانک بجلی کا کرنٹ لگنے سے اللہ کو پیارا ہو گیا۔ دس منٹ بھی نہیں لگے اور ہم ویران ہو گئے۔ میری باجی کی’’ کوک‘‘ فریادوں نے کئی راتیں مجھے سونے نہیں دیا۔ ہائے میں اپنے بھائی بہنوں کو کیسے حوصلہ اور دلاسہ دوں۔ مرزا جی کے الفاظ میں:۔
موت ماریا تیر جو وچ سینے
گیا سَل کلیجہ نہیں سہہ سکدے
نہ ہی فیر مُڑ ملن دی آس کوئی
نہ کوئی حرف زبان تھیں کہہ سکدے
میرا قیصر اپنی جان عقیل قیصر کو بلاتا ہی رہا مگر وہ بالکل بھی نہیں بولا۔ کرنٹ لگا ہی اتنا شدید کہ اُس معصوم کی جان لے گیا۔ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خُدا ہوتا ہے۔ ہم زندگی سے کچھ بھی اُدھار نہیں لیتے‘ کفن بھی لیتے ہیں تو زندگی دے کر۔ اس کیفیت کو کوئی نام نہیں دے سکتا۔ زندگی موت‘ درد اور رشتے کئی کھڑکیاں کُھلیں‘ وارد‘ واردات بھی ہوتی رہی اور تو ارد بھی کہ زندگی کیا ہے؟ سائنس کہتی ہے اور سوشلزم و کمیونزم بھی کہ دھڑکتے دل اور چلتی سانسوں کا نام ہی زندگی ہے۔ لیکن اہل علم و ادب‘ فلسفہ و منطق دفتر بھرتے نہیں تھکتے‘ کوئی زندگی کو جذبات کی جنت کہتاہے تو کوئی اسے خواہشات کا جہنم قرار دیتا ہے کوئی اسے بچوں کی معصومانہ حرکتیں اور کوئی جوانی کی چنچل اداؤں سے تعبیر کرتا ہے۔ کوئی حرکت و عمل کوئی سوزوسازکوئی نظر و نظارہ کو زندگی کہہ دیتا ہے تو کوئی اسے پیشِ آئینہ و پسِ آئینہ یا پھر درونِ آئینہ شہادتوں کا عکس گردانتا ہے۔ زندگی کی تعریف کچھ بھی ہو مگر سچ یہ ہے کہ یہ مصور حقیقی کے کمال فن کی عظمتوں کا لافانی و لاثانی ثبوت ہے۔ یہ لافانی ثبوت حقیقت میں اپنی اصلیت کے اعتبار سے فانی الاصل ہے۔ اس کا خوبصورت ترین پہلو بلکہ وہ پہلوجس نے آلامِ عالم کے زخموں پہ ہمیشہ مرہم کا کام کیا ہے وہ انسانی زندگی کا محبت اور خون کے رشتوں میں پرویا ہونا ہے۔ رشتے دراصل محبت ہی کے ہوتے ہیں خون اور نسب و حسب تو بس ایک نسبت ہے جو محبت کے پودے کو مرجھانے نہیں دیتی۔ اگر زندگی کو پھول کہیں تو رشتے اسکی خوشبو اور اگر زندگی کوئی ثمر آور درخت ہے تو رشتے اس کا ثمر۔ یا پھر زندگی اگر کوئی مذہب ہے تو رشتے اس کی جنت کے حور و غلمان۔ گو یا زندگی رشتہ رشتہ مہکتی‘ پھولتی اور پھیلتی رہی۔ زندگی رشتوں کی گود میں کھیلتا ‘ مسکراتا‘ ہنستا ہنساتا معصوم بچہ جو ہر کسی کے من کو بھاتا ہے۔
زندگی کی تمام تر حشر سامانیاں اپنی جگہ‘ اس کی جملہ خوبصورتیاں ایک طرف‘ ایک اور چیز بھی ایسی ہے کہ جس کے بغیر زندگی کی تعریف نامکمل اور ادھوری ہے۔ جی ہاں! اگر منفی چارج نہ ہو تو مثبت بھی مکمل نہیں ہوتا۔ غالب کے الفاظ میں:۔
نہ ہومرنا تو جینے کا مزہ کیا
موت کیا ہے؟ زندگی کی طرح اس کا دامن بھی تعریفوں کے انبار سے بھرا پڑا ہے۔ اگر زندگی آغاز ہے تو موت اس کی آخیر۔ اگر زندگی ایک خوش رنگ و خوشنماتتلی ہے تو موت اس کے اڑتے ہوئے رنگ یا اس کی نظروں سے اُوجھل ہوتی ہوئی پرواز۔ زندگی اگر جذبات کی جنت ہے تو موت آدم کی جنت سے روانگی۔ زندگی گر موجود ہے تو موت اس کا عدم۔ کوئی اسے انتقال قرار دیتا ہے تو کوئی روز جزا کا پڑاؤ۔ کوئی محبوب سے دوری تو کوئی وصال محبوب کی نوید۔ کوئی اسے فنا ہونا کہتا ہے تو کوئی دریا کا سمندر میں اترنے کا موقع۔ احمد ندیم قاسمی کے الفاظ میں:۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا
کوئی قطرے کی سمندر سے علیحدگی کہتا ہے تو کوئی قطرے کا سمندر سے ملاپ ۔ سخی سلطان باہوؒ فرماتے ہیں کہ:۔
قطرہ ونج پیا سمندرے
ہُنٹر قطرہ کون کہاوے ھُو
سب کچھ بجا لیکن مادی زندگی جس کی تمام تر خوبصورتیاں پیار کے رشتوں کی محتاج ہیں۔ موت اس کو کاٹنے والی شے ہے جو زندگی کے ساتھ ساتھ رشتوں کی رگ حیات بھی کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ یہ وہ قیامت ہے جہاں جذبات کے سامنے بندھے صبر و رضا کے فولادی بند دُھنکی ہوئی روئی کے گالوں کی مانند اُڑتے پھرتے ہیں۔ موت ہمت کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ اصول وقواعد و ضوابط کے تمام بتوں کو پاش پاش کر کے رکھ دیتی ہے اور انسان بے بسی و لاچارگی کے کھلے میدان حشر میں سانسوں کی نفسا نفسی میں سب کچھ کھو دیتا ہے۔ یاسر کیانی کے الفاظ میں:۔
کسے نئیں جگ تے سدا رہنا‘ وارو واری ٹُر جاسن اخیر سارے
نہ کوئی رہسی سودائی گدائی والا‘ مفلس‘ شاہ نہ غنی امیر سارے
رہسی سنگ نہ ساک کوئی یار بیلی‘ نہ کوئی غیر دلدار دلگیر سارے
ہمارے ایک قاضی جی خواتین کو رونے پیٹنے ماتم کرنے سے اکثر منع فرمایا کرتے تھے‘ جب اپنا جوان بیٹا ٹریفک حادثے میں اللہ کو پیارا ہو ا تو قاضی جی بچوں کی طرح دھاڑیں مار کر روئے اور عورتوں کی طرح سینے اور رانوں پر ہاتھ مار مار کر ماتم بھی کیا۔
عیش و عشرت اور خوشیوں بھری زندگی جینے والوں کو کیا خبر کہ موت کے ماروں کے اندر کا حال کیا ہوتا ہے۔ دکھ کسے کہتے ہیں‘ غم و آنسو اور غم کے دریا کس خیالی شے کا نام ہے۔ درد کیا ہے اور درد دل کیا ہوتا ہے؟ع:۔
جیسے روتے ہیں دل ٹوٹ کر‘ ایسے ساون برستے نہیں
دُکھ‘ درد‘ جُدائیوں نے مار کر نڈھال کر دیا ہے کوئی ہم سے پوچھے کہ وچھوڑا کسے کہتے ہیں اور جدائی کیا ہوتی ہے۔ لواحقین کی خدمت میں عرض ہے کہ ہادی برحق رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا وہ مومن بندہ جس کی محبوب ترین چیز میں واپس لے لوں لیکن وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر و رضا کا مظاہرہ کرے‘ اُس کے لیے میرے پاس جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ہے:۔غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے۔

مزید :

کالم -