وزیراعظم صاحب !مسلم لیگ کا امیج درست کریں
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پڑھے لکھے، سنجیدہ آدمی اور خوشگوار شخصیت کے مالک ہیں، وہ ایڈمنسٹریشن کا مناسب تجربہ بھی رکھتے ہیں اور اُن پر ماضی کا کوئی اضافی بوجھ بھی نہیں ، وہ امریکہ سے پڑھے ہیں۔
ایک زمانے میں ایمبیسی روڈ پر وہ میرے ساتھ فرنچ کلاسیں بھی اٹینڈ کرتے رہے ہیں۔ سنا ہے وہ صبح سات بجے دفتر پہنچ جاتے ہیں اور رات دس بجے تک کام کرتے ہیں۔ کام کی نوعیت اور حالات کا تقاضا بھی یہی تھا۔نئی کابینہ بھی کئی لحاظ سے بہتر ہے مثلاً کابینہ پر سب سے بڑا اعتراض وزیر خارجہ مقرر کر کے دور کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ خواجہ آصف بلاشبہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، لیکن اپنے Credentials کی بنیاد پر وہ وزارت خارجہ کے لئے موزوں نہیں لگتے۔دفاع کے لئے بھی ایک فل ٹائم وزیر مقررکیا گیا ہے۔ کابینہ کوپہلے کی نسبت زیادہ نمائندہ بنایا گیا ہے اور دوسرا بڑا اعتراض جنوبی پنجاب کی نمائندگی سے متعلق بھی دور کر دیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب کا ذکر حکومت پرتنقید کے لئے کیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنوبی پنجاب کوئی نیا علاقہ دریافت ہوا ہے اور وہ باقی پنجاب سے بہت پسماندہ ہے۔ یہ اعتراض اُٹھانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ شریف خاندان سے پہلے پورے پنجاب پر یہی جنوبی پنجاب حکمران رہا ہے۔
ممتاز دولتانہ ، مشتاق گرمانی، افتخار ممدوٹ ، مصطفی کھر، عبدالحمید دستی ،سجاد قریشی،صادق قریشی بہاولپورکے عباسی وغیرہ سب سرائیکی تھے، حتیٰ کہ نواب کالا باغ بھی وسطی پنجاب سے نہیں تھے۔سرتاج عزیز ایک اثاثہ ہیں انہیں پلاننگ کمیشن کا ڈپٹی چیئرمین بنانے کا فیصلہ بھی بہت مناسب ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میاں نوازشریف نے تمام تر جائز اور ناجائز تنقید کے باوجودان معاملات میں اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
سابق وزیراعظم پر دو جائز اعتراض یہ بھی تھے کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتے اور کابینہ کے اجلاس نہیں بلاتے۔نئے وزیراعظم کو پارلیمنٹ، کابینہ اور دوسرے اداروں کو فعال بنانا چاہئے اور اہمیت دینی چاہئے تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ قومی اداروں کا فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں، بلکہ سارے فیصلے کچن کینٹ میں ہو رہے ہیں، صرف وزیراعظم نہیں، بلکہ پوری سرکاری مشینری کو عملی طور پر فعال نظر آنا چاہئے۔ قوم بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ حکومت کا کاروبار اداروں کے ذریعے شفاف انداز میں چلتا نظر آنا چاہئے۔
مسلم لیگ(ن) کو اپنے لیڈرکی نااہلی کی وجہ سے ایک ناخوشگوار صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم اس صورتحال نے ایک موقع فراہم کر دیا ہے کہ پارٹی صحیح فیصلے کرکے اپناامیج درست کرلے۔ اس طرح پارٹی اس موقع کو اپنے فائدے میں استعمال کر سکتی ہے۔ غلطیاں سب سے ہو جاتی ہیں، لیکن غلطیوں پر اصرار کرنا اور ہٹ دھرمی اختیار کرنا کوئی اچھی پالیسی نہیں۔ جمہوریت کا یہ حسن ہے کہ آپ لوگوں کا ردعمل جان کر معاملات پر ازسرنو غور کر لیں۔
مسلم لیگ بنیادی طور پراشرافیہ کی پارٹی ہے۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس پارٹی کی اکثریت پڑھی لکھی، سنجیدہ اور تجربہ کار ہے۔ ان کا عمومی رویہ بھی شریفانہ اور معقول ہوتا ہے،لیکن ان کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پارٹی سٹیٹس کو کی حامی ہے۔
انقلاب اور تبدیلی جیسے لفظوں کو وہ خالی نعرہ بازی سمجھ کر نظرانداز کر دیتی ہے لہٰذا میں پارٹی سے کسی انقلاب کی توقع تو نہیں رکھتا لیکن صرف یہی مشورہ دے سکتا ہوں کہ آپ سٹیٹس کو توڑنے کی کوشش کریں اور پارٹی کو تھوڑا سا عوامی رنگ دیں۔ مسلم لیگ سے یہ چھاپ اُترنی چاہئے کہ یہ بزنس کمیونٹی اور دوسرے امیر طبقوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ وسائل کا عام آدمی تک Tricle Down نظر آنا چاہئے۔
1980ء کی دہائی میں ایک لینڈ لارڈ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے جو زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے مارشل لاء کی چھتری کے باوجود کچھ انقلابی قدم اُٹھائے تھے اور ذاتی ایمانداری کی بھی بڑی اچھی مثال قائم کی تھی حالانکہ زمیندار طبقہ (میں خود خاندانی طور پر اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہوں) سٹیٹس کو کا حامی ہوتا ہے، لیکن جونیجو صاحب نے فیصلہ کیا کہ آئندہ سیکرٹری اور جرنیل تک کے عہدے کے افسر 1000 سی سی کی گاڑی استعمال کریں گے۔
وہ خود 1300 سی سی ٹیوٹا کار میں بیٹھ کر پارلیمنٹ سے روانہ ہوئے۔ افسوس ہم نے وہ پالیسی آگے بڑھانے کی بجائے ریورس گیئر لگا لیا اور اب غلط یا صحیح مخالفین حکومت پر مغل شہنشاہ اور تخت لاہور کے آوازے کستے ہیں۔ وزیراعظم کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ آئندہ کوئی وزیر یا سرکاری افسر 1300 سی سی سے اوپر گاڑی استعمال نہیں کرے گا۔ گریڈ 19 تک کے افسروں کے لئے چھوٹی گاڑی کی اجازت ہونی چاہئے۔ممکن ہے قانونی طور پراس کی اجازت نہ ہو، لیکن میں نے خود پجارو گاڑیوں پر حکومت پاکستان کی پلیٹیں دیکھی ہیں اور پھر خصوصاً نیم سرکاری ادارے اس معاملے میں آزادی کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں کئی کارپوریشنوں کے منیجنگ ڈائریکٹرز نے پجارو گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں، جس کا قطعاً کوئی جواز نہیں، حتیٰ کہ نیشنل بینک کے صدر نے بلٹ پروف گاڑی رکھی ہوئی تھی۔ بینکوں کے صدر کی پوسٹ کب سے اتنی Senstive ہو گئی ہے۔
پنجاب کا گورنر ہاؤس کئی مربعوں پر مشتمل ہے۔ اتنی قیمتی اور مرکزی جگہ کا یہ استعمال کسی طرح مناسب نہیں۔ برطانیہ سے امپورٹڈ گورنر چودھری سرور نے بھی اس صورتِ حال میں تبدیلی کی کوشش نہیں کی موجودہ گورنر رجوانہ صاحب میرے مہربان ہیں میں وثوق سے کہہ سکتا وہ کسی تبدیلی میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
گورنر کو جی او آر ون میں مناسب دفتر دیا جا سکتا ہے۔ سنا ہے وزیراعلیٰ کے تین چار دفتر ہیں انہی میں سے ایک گورنر کو دیا جا سکتا ہے اور گورنر ہاؤس میں ایک ورلڈ کلاس یونیورسٹی کی بنیادرکھ دی جائے۔ اس کے علاوہ مختلف اضلاع میں اب تک کمشنروں،ڈپٹی کمشنروں اور پولیس افسروں کے سرکاری مکانات ایکڑوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک اطلاع کے مطابق کمشنر سرگودھا کی رہائش 104کنال اور DPO ساہیوال کی رہائش 98 کنال پر محیط ہے۔
برٹش راج کی ان یادگاروں پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ آپ کیوں ایسے فیصلوں سے اعراض کر رہے ہیں، جن پر اگر مستقبل میں کسی اور پارٹی کی حکومت نے عمل کر دیا تو آپ کا قد بہت چھوٹا ہو جائے گا۔
مَیں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں اِس معاملے کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ کسی طرح رہائشی پلاٹوں کی لوٹ سیل جاری ہے۔ مثلاً فیڈرل سیکرٹری کو دو پلاٹ دیئے جاتے ہیں۔ ان کی بیوی اگر سروس میں ہے تو اُسے بھی گریڈ کے حساب سے ایک یا دو پلاٹ الاٹ ہو جاتے ہیں پھر وہ سیکرٹری کری روڈ سکیم میں گرے سٹرکچر کے نام پرپلاٹ کی الاٹمنٹ کے حقدار بن جاتے ہیں اور پھر انہی بیچارے بے گھر سیکرٹریوں کے لئے پی ایچ اے ایگزیکٹو فلیٹس بھی بنا رہی ہے پھر معاملہ یہاں تک نہیں،بلکہ پلاٹوں اور فلیٹس کی قرعہ اندازی میں گھپلے کے ذریعے اچھے پلاٹ اور فلیٹس ہمیشہ 2 2 گریڈ والوں کے نکل آتے ہیں۔ ہمارے ایک سابق کولیگ ٹی وی پروگرام کے سلسلے میں اُس وقت کے سی ڈی اے کے چیئرمین فرخند اقبال سے سوال کیا کہ پارک انکلیو میں سارے اچھے کارنر پلاٹ حکومت کے اہم لوگوں کو الاٹ ہوئے ہیں تو یہ سب کچھ قرعہ اندازی کے ذریعے ہوا۔ فرخند اقبال نے جواب دیا کہ جی ہاں، قرعہ اندازی کے ذریعے ہوئے ہیں۔ اب پی ایچ اے نے اعلیٰ سرکاری افسروں کے لئے ایگزیکٹو فلیٹس کا اعلان کیا ہے۔ شاید یہ قرعہ اندازی بھی ایسی ہی ’’شفاف‘‘ ہو اور سیکرٹریوں کے فلیٹس جی 10 میں نکل آئیں۔
غرضیکہ یہ قانونی کرپشن کی ایک طویل اور افسوسناک کہانی ہے۔ وزیراعظم کو اس پالیسی کو ریویو کرنا چاہئے۔
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کرپشن اور اقرباء پروری جیسی لعنتوں کو ختم کرے گی، لیکن افسوس کہ ہم نے انہی باتوں کو روزمرہ کلچر میں شامل کر لیا ہے۔ لوگوں نے اپنے دفتر رشتہ داروں سے بھر لئے ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں اس سے طرح طرح کی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اہل لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔
مسلم لیگ قائداعظم کی وارث ہے اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اقرباء پروری کی حوصلہ شکنی کریں اور کچھ نہیں تو کم از کم تمام وزارتوں کو ایک سرکلر کے ذریعے ہدایت کریں کہ اقرباء پروری کے مرتکب افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اب تک حکومت پر ایک شدید اعتراض یہ چلا آ رہا ہے کہ انہوں نے گڈگورننس کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خصوصاً اس بات پر حکومت کی کافی بدنامی ہوئی ہے کہ انہوں نے محکموں میں پوسٹیں خالی رکھی ہوئی ہیں اور مناسب آدمی نہیں لگائے۔ اس کی بظاہر کوئی وجہ یا جواز سمجھ میں نہیں آیا۔ اِس وقت بے شمار محکمے قیادت کے بحران سے دوچار ہیں۔ مثلاًقائداعظم یونیورسٹی میں 130 پوسٹیں خالی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کا عہدہ خالی ہے۔کئی وائس چانسلرز کے عہدے خالی ہیں ۔ غرضیکہ بے شمار سرکاری اور نیم سرکاری محکمے لاوارث ہیں۔ پی ٹی وی میں ایم ڈی، ڈی ایم ڈی، ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن، پی ٹی وی ورلڈ کے چینل ہیڈ اور پی ٹی وی نیوز کے چینل ہیڈ کی پوسٹیں طویل عرصے سے خالی ہیں۔ وزیراعظم اس صورتِ حال کا نوٹس لیں اور متعلقہ لوگوں کو ہدایت کریں کہ اگلے تین ماہ میں تمام محکموں میں خالی پوسٹوں پر مناسب لوگوں کا تقرر کیا جائے۔
میرٹ کی پاسداری اور گڈگورننس مسلم لیگ حکومت کا دعویٰ رہا ہے اور غالباً انہی دعوؤں پر یقین کرکے مڈل کلاس نے انہیں ووٹ دیئے تھے، لیکن اس معاملے میں مسلم لیگ نے باشعور طبقے کو کافی مایوس کیا ہے۔ اب حکومت کے پاس وقت اگرچہ بہت کم ہے، لیکن توقع کی جا سکتی ہے کہ نئے وزیراعظم نسبتاً نوجوان اور متحرک ہیں وہ تھوڑے عرصے میں بھی ایک مثبت پیغام دے سکتے ہیں اور یہ پیغام آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔