صحرائے تھر ایک بار پھر قحط سالی کی لپیٹ میں، علاقہ مکین نقل مکانی پر مجبور، گندم کی تقسیم میں بھی بندر بانٹ کی اطلاعات

صحرائے تھر ایک بار پھر قحط سالی کی لپیٹ میں، علاقہ مکین نقل مکانی پر مجبور، ...
صحرائے تھر ایک بار پھر قحط سالی کی لپیٹ میں، علاقہ مکین نقل مکانی پر مجبور، گندم کی تقسیم میں بھی بندر بانٹ کی اطلاعات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمرکوٹ (سید ریحان شبیر)  صحرائے  تھر ایک بار پھر سنگین  قحط سالی کی لپیٹ میں ہے  اس سال بارشیں کم ہونے کے غریب تھری باشندے تھر سے  بیراجی علاقوں کی جانب نقل مکانی کرنے پرمجبور قحط سالی کےبعد حکومت سندھ کی جانب امدادی گندم  کی تقسیم شروع گندم تقسیم میں اپنے اپنے بندوں میں  امدادی گندم کی  بندربانٹ کی اطلاعات    عمرکوٹ کی قحط زدہ پچیس دیہوں میں 31390 خاندانوں کیلئے سندھ حکومت کیجانب سے گندم کی ترسیل کا عمل شروع کیا گیا ۔

دوسری جانب قحط متاثر نادرا کے عمل سے نہ خوش قحط متاثرین کی بڑی تعداد امداد سے  رہنے کا خدشہ غریب لوگوں کا کہنا ہےکہ حکومت سندھ مستقل بنیادوں پر مسئلہ حل  کریں پچاس کلو گندم کی  فراہمی مسلئے کا حل نہیں ہے اوریہ امداد تو آٹے    میں نمک کے مترادف ہےکئی متاثرین کا یہ  بھی شکوہ تھا کہ یہ گندم سیاسی بنیادوں پر  اپنے اپنے منظور نظر لوگوں      میں تقسیم کی  جاری ہے   ۔

تفصیلات کے مطابق  تھرپارکر کے ساتھ عمرکوٹ کا صحرائی علاقہ بھی اس سال بارشیں کم ہونے کے باعث قحط سالی کے زد میں ہے جس کے باعث تھری باشندے اپنے مویشیوں کو لےکر بیراجی علاقوں کی  جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہے تھر ی باشندوں  کے مطابق اس سال تھر میں بارش ایک سو ملی میٹر سے بھی کم ریکارڈ  کی گئی ہے تھر  کےلوگوں مطابق تھر میں  دو ماہ میں تین سو ملی میٹر بارش ہونی چاہیئے تھی جوکہ نہ ہوسکی اس کی وجہ سے تھر کے غریب تھری باشندے شدید مشکلات کاشکار ہے غربت  بےروزگاری افلاس  کے باعث  تھری باشندے  پینے  کے پانی نہ ہونے کے  باعث نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں اگر وقت پر حکومت نے اقدامات نہیں کیئے تو حالات مزید بگڑ سکتے ییں اس موقع پر میڈیا  سے متاثرین نے بات کرتے ہوئے  عبدلجبار نہڑی،رحیمداد ،گھمن  تیجمال بجیر بشیر رحمت اللہ نے بتایا کہ ہمیشہ کی طرح  اس مرتبہ بھی شروع میں بارشیں  ہونے سے ہم  نے زمینیں وغیرہ ہموار کرکے فصلیں کاشت کی جن  پر     بھاری اخراجات ہوئے لیکن مقررہ مدت     وقت پرمطلوبہ بارشیں  نہ ہونے سے ہمیں کافی مالی نقصان ہوا اور فصلیں بھی کاشت نہیں ہوئی اور  مویشیوں کا چارہ بھی ختم ہو رہا ہے  جس کے باعث ہزاروں افراد نقل مکانی کرکے سندھ کے نہری علاقوں کی طرف جا رہے ہیں انہوں نے  مزید کہا حکومتیں صرف اپنی اپنی میں مشغول ہیں عوام کو دینے کیلئے انکے پاس کچھ بھی نہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ چارہ ختم ہونے کے باعث مویشیوں میں مختلف امراض پھوٹ پڑے ہیں لیکن سرکاری سطح پر  نقل مکانی کرنے والوں کی گزگاہوں پر کہیں بھی مویشیوں کی دیکھ بھال کیلئے کوئی بھی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس کیوجہ سے ہمارے مویشی بھی مررہے ہیں اور جو بچ گئے ہیں انکو سستے داموں میں فروخت کرنے پر مجبور ہیں دوسری جانب حکومت سندھ نے قحط سالی کے پیش نظر تھرپارکر کے ساتھ ساتھ عمرکوٹ کی پچیس صحرائی دیھوں کو قحط زدہ قرار دے کر بیشتر علاقوں میں امدادی کاروائیاں بھی  شروع کی گئی لیکن نادرا کیجانب سے جاری کردہ لسٹ میں قحط سے متاثرين کی بڑی تعداد  رہ جانے سے غریب  عوام سخت انتشار کا شکار ہیں عمرکوٹ کی دیہہ ویھرو تھر میں قائم کردہ امدامی کیمپ میں قحط متاثرین کی بڑی تعداد امٹ آئی جس میں  بیشتر شکایات کرنے لگے  کہ ہمارے نام ہی نہیں لسٹوں میں اب ہم لوگ کہاں جائیں متاثرین کا کہنا تھا کہ جب ہالیہ الیکشن ہوئے تو پی پی امیدواران کو یہی پر ہی ووٹ دئیے تھے لیکن اب کہا جارہاہے کہ سندھ حکومت اور نادرا  کیجانب سے جاری کردہ ڈیٹا میں آپ کے نام  شامل نہیں ہیں آپکو امداد نہیں مل سکتی جبکہ دیگر چوبیس دیہوں کا کام ابھی باقی ہے رابطہ کرنے پر اسسٹنٹ کمشنر عمرکوٹ بابر نظامانی نےمیڈیا  کو بتایا کہ نادرا کی جانب سے جاری کردہ اعداد  شمار میں 31390 قحط متاثر خاندانوں کی امداد کی جائے گی جس پر عمل درآمد جاری ہے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے موبائیل ایپ پر نادرا کی جانب سے ارسال کی گئی فہرست میں قحط متاثر کی تصدیق کیجاتی ہے اگر اسکا شناختی کارڈ نمبر درست بتاتاہے تو اسکو ٹوکن جاری کیا جاتا ہے بعد میں محکمہ فوڈ کیجانب سے قائم کردہ  سینٹر سے پچاس کلو گندم وصول کرسکتا ہے  ۔

دوسری جانب سماجی رہنماوں کی جانب سے مطالبہ کیا ہےکہ تھر میں حکومت سندھ کے ساتھ وفاقی حکومت بھی تھر میں قحط سالی سے نمٹنے کےلیے کوئی ٹھوس مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کریں یہ پچاس کلو گندم فراہمی مسئلے کا حل نہیں ہے وفاقی اور سندھ حکومت کو سنجیدگی سے اس مسئلے کےحل کےلیے کچھ کرنا ہوگا تھر کے غریب تھری باشندے کب تک امداد کے لیے اپنے ہاتھ پھیلاتے رہے گے۔