بچپن کی بھولی بسری کہانیاں

بچپن کی بھولی بسری کہانیاں
بچپن کی بھولی بسری کہانیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گز شتہ ہفتے بچوں کا نیا تعلیمی سال شروع ہوا تو بیگم نے بتا یا کہ اس مرتبہ بچوں کے نصاب میں پانچویں جما عت کے لئے نصابی کتب کے ساتھ ساتھ انگریزی اور اردو ادب کی بھی کئی کتا بوں کے مطا لعے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بچوں کے لئے اردو اور خاص طور انگر یزی ادب کی کتابوں کے لئے شہر کی ایک بڑی دکان کا رخ کیا۔ بچوں کے لئے ادب کی کتا بیں لیتے ہوئے میں نے دکان کے منیجر صاحب سے سوال کیا کہ بچوں کے ادب کی کتابیں کتنی تعداد میں فروخت ہو جاتی ہیں۔

ان صاحب نے جواب دیا کہ ادب کی ایسی کتا بیں ہی زیا دہ تعداد میں فرو خت ہو تی ہیں جن کو کئی سکولوں میں لا زمی قرار دیا گیا ہو تا ہے ورنہ بچوں کے ادب کے لئے لکھی گئی شاہکار اور مشہور کتا بوں میں نہ تو بچوں کے لئے کو ئی دلچسپی ہو تی ہے اور نہ ہی ان کے والدین میں یہ خواہش دکھا ئی دیتی ہے کہ اپنے بچوں کو ایسے ادب کی طرف راغب کیا جائے۔ ہمارے سماج میں تیزی کے ساتھ کتاب بیزاری کا جو رویہ پیدا ہو چکا ہے اس سے ہر کوئی آگاہ ہے، مگر یہ جان کر ما یوسی میں مزید اضافہ ہوا کہ ہمارے بچپن کے دور کی بچوں کی مشہور کتا بوں اور رسالوں کی اشاعت بھی اب کم ہو تی جا رہی ہے۔کتا بوں کی اس دکان سے با ہر نکل کر گھرکی جانب ڈرائیو کے دوران نہ جانے کیوں اپنا بچپن اور اس دور کا بچوں کا ادب یاد آنے لگا۔


کبھی کبھی جب گزری زندگی پر نگاہ ڈالنے کا موقع ملے توبچپن کا دور بہت شدت سے یاد آتا ہے۔ایک ایسا دور جب ہر طرف بے فکری کا راج ہوا کرتا تھا۔گرمیوں کی چھٹیوں میں کرکٹ،کیرم اور کہانیوں سے وقت کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا،لیکن افسوس آج کے بچے ہمارے مقابلے میں ان تمام چیزوں سے کوسوں دور ہیں، جہاں ہمارے لئے بیٹ بال سے کھیلنے یا مزے مزے کی کہانیاں پڑھنے کے لئے وافر ٹائم ہوا کرتا تھا۔بدقسمتی سے اب بچے وہی وقت پلے سٹیشن، ایکس باکس کے جواسٹکس پکڑے بے مقصد گزار رہے ہوتے ہیں،لیکن بات کو وہیں سے شروع کرتے ہیں کہ کم از کم ہماری نسل تک ہمارے والدین نے خود ہمیں بک سٹال کی راہ دکھائی اور یوں ہم بچوں کی کہانیوں اور رسائل کی عجب غضب دُنیا سے روشناس ہوئے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ میر ے بچپن میں بچوں کا مشہور رسالہ ”تعلیم و تربیت“ بچوں میں بہت مقبول ہو تا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ تعلیم و تربیت واقعی اپنے نام کی طرح بچوں کو تعلیمی انداز میں بہترین تربیت فراہم کرتا رہا ہے۔

اس دور میں جس طرح ڈاکٹر عبدالروف نے تصویری کامکس کی مدد سے،شیر شاہ سوری،ٹیپو سلطان اور قائداعظمؒ پر کام کیا وہ آج بھی دل و دماغ پر نقش ہے۔آج بھی یہ کامکس کتاب میلے پر دستیاب ہیں۔اسی طرح ذکیہ بلگرامی کی مزاحیہ چچا بھلکڑ سیریز کا بھی اپنا ہی مزا تھا۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب یہ سیریز بھی کتابی شکل میں دستیاب ہے مگر اس کو لینے والے کم ہو گئے ہیں۔ غرضیکہ اے حمید،مقبول انور داؤدی، مقبول جہانگیر، میرزا ادیب اور یونس حسرت سب نے ہی اپنی اثر انگیز تحریروں سے تعلیم و تربیت کے پلیٹ فارم سے بچوں کی آبیاری کی۔یہاں اے حمید کی سیریز انگوٹھی کہاں گئی؟کا حوالہ بھی بہت ضروری ہے جس میں مرکزی کردار فاران ایک انگوٹھی پہن کر محمد بن قاسم سے سلاطین دہلی اور وہاں سے مغلیہ دور کا خود مشاہدہ کرتا ہے۔ اس سیریز میں کمال خوبصورتی سے فکشن کے ساتھ تاریخ کا درس دیا گیا اور یوں اوائل عمری میں ہی تاریخ پڑھنے کا چسکا لگ گیا۔اس کے ساتھ حکیم محمد سعید کے نونہال نے بھی اپنے دور کے نونہال بچوں کو کئی سبق آموز اور دلچسپ کہانیاں دیں۔خصوصاٰ نونہال میں مسعود احمد برکاتی نے چارلس ڈکنز، الیگزینڈر ڈوما کے ناولوں کا کیا ہی خوبصورتی سے ترجمہ کیا اور بچوں کو جس طرح مغربی لٹریچر سے کم عمری میں ہی روشناس کرایا وہ اپنی مثال آپ تھا۔

ان ناولوں میں تین بندوقچی،آلیور ٹوئسٹ،ہزاروں خواہشیں اور مونٹی کرسٹو کا نواب اپنے آپ میں کسی سوغات سے کم نہیں تھے،جبکہ ان رسائل کے سالنامے جو عام رسالے سے خاصے بھاری بھرکم ہوا کرتے تھے۔ بچوں کے لئے بلاشبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک مکمل پیکیج ہوا کرتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ ”آنکھ مچولی“،”بچوں کی دنیا“ اور”پھول“ نے بھی بچوں پر خاصے گہرے اثرات چھوڑے۔ساٹھ،ستر،اسی اور نوے کی دہائی تک جاسوسی ناولوں کی بات کی جائے تو ابن صفی اور اشتیاق احمد کے ناولوں نے بھی بچوں کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔عمران،انسپکٹر جمشید اور انسپکٹرکامران مرزا کے کرداروں نے کچھ ایسا جادو کیا کہ ان کے ناولوں سے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں تک بھی داؤ پر لگ جایا کرتی تھیں۔

اسی طرح اس دور میں اگر انفرادی کہانیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو ایسے کئی جادوئی،جرات سے بھرپور کردار رہے، جنہوں نے ایک عالم کو مہبوت کئے رکھا۔ان کرداروں میں سب سے پہلے عمرو عیار کا تذکرہ ہوجائے جو کہ جسمانی طور پر لاغر ہونے کے باوجود ایک زنبیل کندھے پر لئے دنیا جہان کے خوفناک جادوگروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہتا تھا۔ اس کا اصل حریف طلسم ہوشربا کا شہنشاہ افراسیاب ہواکرتا تھا،جو عمرو عیار کو ختم کرنے کے لئے کئی جادو گروں کو بھیجا کرتا، لیکن سب کے سب عمرو کی عیاری اور اس کی زنبیل، جس میں دُنیا جہاں کی چیزیں سما سکتی تھیں کے آگے ہمیشہ ناکام ہو جاتے اور افراسیاب خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔تاہم دلچسپ بات یہ تھی کہ طلسم ہوشربا کی بنیادوں کو تہہ و بالا کرنے والا عمرو اپنی فربہ بیوی چاند تارہ سے پناہ مانگا کرتا تھا۔لیکن بلاشبہ عمرو عیار ہمارے دور کا ایک رومانس رہا ہے۔افسوس اس کیریکٹر کو کسی نے کبھی پردہ سکرین پر اتارنے کا نہیں سوچا۔اسی طرح ٹارزن جو ایڈگر رائس کے قلم کی تخلیق تھا۔

اس پر لکھی گئی کہانیوں نے بھی بچوں میں خوب مقبولیت حاصل کی۔افریقہ کے جنگلوں میں شیر کی کھال میں ملبوس کسرتی جسم کے مالک ٹارزن نے بھی مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔اپنے جنگل اور جانوروں کے تحفظ کے لئے خونخوار آدم خور قبائل اور گورے شکاریوں سے ٹکرا جانے والا ٹارزن جرات اور بہادری سے مزین ہمیشہ سے ہی بچوں کا ہیرو رہا ہے۔جبکہ اسی طرح آنگلو بانگلو کے مزاحیہ کرداروں کو بھی فراموش کرنا بہت مشکل ہوگا۔ان دو بے ڈھنگے بھائیوں کو شادی کا جنون ہوتا تھا اور اس مقصد کے لئے کیسی کیسی حماقتیں ان سے سرزد ہوتی ہیں۔ان کو پڑھ کر ہنسی کا طوفان تھمے نہیں تھمتا تھا۔یہاں ذکر ہوجائے چھن چھنگلو سیریز کابھی جو بچوں میں خاصی مقبول تھی۔

جس میں ایک بچہ اپنے سے کئی گنا بڑے دیو ؤں اور جنوں کو ناکوں چنے چبوا دیتا ہے،جہاں اتنے کرداروں کی بات ہو رہی ہے وہاں چلوسک ملوسک کا بھی ذکر ہوجائے، جو اپنے والد جو کہ ایک جرمن سائنس دان ہوتا ہے، کے تیار کردہ جہاز میں سوار مختلف سیاروں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں تو کبھی ٹائم مشین کے ذریعے ماضی میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ان میں سے بیشتر کہانیوں کو مظہر کلیم ایم اے اور صفدر شاہین نے تحریر کیا اور صحیح معنوں میں بچوں کے دِلوں پر راج کیا۔ اب احساس ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں ہمارے لئے کتنی ضروری تھیں،جہاں پل بھر میں ہم طلسماتی دنیا میں پہنچ جایا کرتے اور جادوئی مناظر کی منظر کشی کا لطف اٹھاتے۔انہی کہانیوں کے مطالعے سے مستقبل میں کتاب بینی کی عادت پڑ جاتی ہے۔ زبان کے کئی الفاظ سے بھی آشنائی ملتی ہے۔ان کہانیوں میں برائی پر سچائی کی جیت بچوں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے نہایت دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔کہانیوں کی فینٹسی مستقبل میں ہمارے شعور کو جلا بخشنے کا کام کرتی ہے۔ ان سب با توں کو یاد کرنے کے بعد ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ اپنے بچوں کی کہانیوں کی کتابوں سے دوستی کرائیے۔ابتدائی عمر میں بچوں کے لئے اس سے بہتر اور کوئی تحفہ ہو ہی نہیں سکتا۔

مزید :

رائے -کالم -