انفنٹری: ملکہ ء جنگ!
ایک برطانوی فیلڈ مارشل (شائد منٹگمری) نے اپنی کتاب شائد(Memoirs) میں لکھا ہے کہ: ”انفنٹری سولجر ہی ہے جو میدانوں میں لڑ سکتا ہے، دریاؤں میں تیر سکتا ہے، برف زاروں میں معرکہ آرائی کر سکتا ہے، صحراؤں میں میدانِ کارزار گرم کر سکتا ہے اور شدید گرم مرطوب علاقوں میں طوفانِ بادوباراں کے مقابل جم کر کھڑا ہو سکتا ہے“۔
”بیابانوں اور گھنے جنگلوں میں سے گزرنا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں۔ وہ ٹرانسپورٹ طیاروں، ٹرینوں، ٹرکوں اور بحری جہازوں کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام تک بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود اپنے دو پاؤں پر چل کر جہاں چاہے جا سکتا ہے۔ یہی دو پاؤں اس کی سب سے بڑی متاع ہیں۔ یہی اس کا سرمایہ ہیں۔ اس کی قوتِ برداشت کا اصل امتحان یہ ہے کہ یہ پیدل سپاہی اپنے دو پاؤں پر کتنی دیر تک کھڑا ہو کر دشمن کے ساتھ دو دو ہاتھ کر سکتا ہے۔ کسی بھی فوج میں بہترین آرمر، بہترین توپخانہ، بہترین ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر موجود ہو سکتے ہیں، اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول اعلیٰ پیمانے کا ہو سکتا ہے، اس کا سٹاف انتہائی بیدار مغز افسران پر مشتمل ہو سکتا ہے اور اس کا انتظام و انصرام لاجواب ہو سکتا ہے لیکن جب تک اس کی انفنٹری لاجواب نہیں ہوتی، وہ فوج بہترین فوج نہیں کہلا سکتی“۔
ہم 21ویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ اس میں جس تواتر اور جس تسلسل سے عسکری فیلڈز میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں، کسی اور شعبے میں ہرگز نہیں ہوئیں، انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ جونہی کوئی نئی چیز دریافت کرتا ہے، اس کے دماغ میں خارش شروع ہو جاتی ہے کہ اسے جنگی مقاصد کے لئے کس طرح استعمال کیا جائے۔ اس نے تلوار کے وار کا مقابلہ کرنے کے لئے ڈھال ایجاد کی تو سوچنا شروع کر دیا کہ اس ’ڈھال‘ کا توڑ کیا ہے۔ چنانچہ نیزہ ایجاد ہوا جس کے خلاف ڈھال اگر کارگر تھی بھی تو صرف جزوی طور پر ……
ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی جنگی ایجادات کا ذکر نہیں کرتے کہ ان سے کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن اس بے محابا ترقی نے افواج ثلاثہ (آرمی، نیوی، ائر فورس) کو ایک نیا مفہوم عطا کیا اور ریموٹ کنٹرول آلات نے میلوں دور بیٹھ کر صرف ایک بٹن دبا کر جنگی مقاصد حاصل کرنے کا گُر جان لیا۔
یادش بخیر مرحوم سوویت یونین کے آنجہانی مردِ آہن نکیتا خردشیف نے 1962ء میں ایک بار پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان کے تیور درست نہ ہوئے تو پشاور کے گرد انہیں ایک ’سرخ دائرہ‘ لگانا پڑے گا۔ وہ اپنے ریموٹ کنٹرول سے پاکستان پر جوہری میزائل فائر کرنے کی دھمکی دے رہے تھے…… اسی طرح ویت نام کی جنگ میں انہی ریموٹ کنٹرول آلات کی مدد سے بے شمار بارودی سرنگیں دھماکے سے پھٹتی رہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی پاکستان میں جاری ہے اور ہمارے درجنوں بلکہ سینکڑوں آفیسرز اور جوان IED (خانہ ساز بارودی آلات) سے شہید ہو چکے ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی نے ہزاروں میل دور بیٹھ کر دشمن کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان پہنچانے کا نسخہ پا لیا ہے۔ ستاروں پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں اور جاسوسی سیاروں کی مدد سے روئے زمین کی ہر ساکن اور متحرک چیز کی تصویر کشی ایک معمول بن چکی ہے۔ خدا لگتی بات یہ ہے کہ جب بیٹھے بٹھائے عسکری مقاصد اور جنگی اہداف کا حصول ممکن ہو جائے تو پھر میدانِ جنگ میں کود کر اتنا خون خرابہ کرنے کی مصیبت کیوں مول لی جائے؟
دست بدست لڑائی (CQB)میں تو برابر کی چوٹ ہوتی ہے اور خاک و خون کے صحراؤں اور دریاؤں کو عبور کرکے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ سکندراعظم سے لے کر (بلکہ اس سے بھی پہلے) پہلی عالمی جنگ تک (1918ء) یہی کچھ ہوتا رہا۔ انفنٹری سولجر کے ساتھ اس کا ساتھی صرف ’گھوڑا‘ تھا جس نے دوسری جنگ عظیم تک اس کا ساتھ دیا۔ دوسری جنگ عظیم 1939ء میں شروع ہوئی جب ٹینک نے گھوڑے کی جگہ لے لی لیکن تب تک میدان ہائے جنگ تلواروں کی جھنکار، گھوڑوں کی ہنہناہٹ، نیزوں کی چمک اور ڈھالوں کی چھنک سے گونجتے رہے۔ گھمسان کے رن پڑتے رہے اور کشتوں کے پشتے لگتے رہے۔ میدانِِ کارزار انسانی خون سے سرخ ہوتا رہا لیکن جب انسان نے جوہری بم ایجاد کر لیا تو جنگ و جدال کے ہتھیاروں کی لغات میں ایک ایسے ویپن کا اضافہ ہو گیا جس میں بیچارے انفنٹری سولجر کی اہمیت اور افادیت اتنی کم ہو کے رہ گئی کہ معلوم ہونے لگا کہ اب آئندہ جنگوں میں سپاہی نہیں، صرف روبوٹ لڑا کریں گے۔ بہت سے ماہرینِ حرب و ضرب نے تو ’سنسان میدانِ جنگ‘ کی نئی اصطلاح وضع کر لی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب میدان جنگ میں کسی پیادہ سپاہی کو اتارنے کے دن ختم ہو گئے! بعض عسکری بزرجمہروں نے تو یہاں تک حکم لگانا شروع کر دیا کہ جس طرح ٹینک نے آکر گھوڑے کو میدانِ جنگ سے باہر کر دیا تھا،نیزے نے تلوار کو، فضائی دفاع کے نظام نے توپخانے کو اور ڈرون نے ائر فورس کو نگل لیا تھا اسی طرح جوہری ٹیکنالوجی نے غیر جوہری (روائتی) وارفیئر کومیدانِ جنگ سے فارغ خطی دے دی ہے۔ اور مزید برآں یہ زمانہ آج صرف جوہری سائنسدانوں، جوہری ورکشاپوں، جوہری کارخانوں اور جوہری وسائلِ آمد و رفت کا زمانہ ہے۔ اس دور میں انفنٹری سولجر کا کیا کام؟……
تمام کی تمام عسکری تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ہتھیاروں، ساز و سامانِ جنگ اور جدید جنگی چالوں (ٹیکنیکس اور سٹریٹیجی) کو ایک ایک کرکے میدان جنگ کی مشکلات اور کٹھنائیوں نے نگل لیا یا تبدیل کر ڈالا…… چاقو ایجاد ہوا تو خنجر اور تلوار نے اس پر برتری پالی اور جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا تلوار کو نیزے نے چِت کر دیا۔ سپاہی نے فرار ہونے اور دشمن کو جُل دینے کے لئے گھوڑوں کو استعمال کرنا شروع کیا…… یہ دوبدو اور غیر بارودی جنگ کا سنہرا دور تھا…… لیکن پھر جلد ہی سپاہی کی عددی اور جسمانی برتری کو بارود نے ختم کر دیا۔جب انسان نے ہمہ گیر تباہی (Mass Destruction) والے ہتھیار ایجاد کر لئے تو فُٹ سولجر نے بکھر کر لڑنے کا گُر سیکھ لیا۔ کیمیائی گیس ایجاد ہوئی تو کہا جانے لگا کہ اب خاموشی سے دشمن کی سپاہ کو موت کی نیند سلایا جا سکے گا۔ لیکن انفنٹری نے گیس ماسک ایجاد کر لئے۔ پٹرول اور ڈیزل انجنوں نے ٹرکوں، ٹینکوں، توپوں اور طیاروں کو میدان میں اتارا تو ٹینک شکن، طیارہ شکن اور میزائل شکن وسائل کا بازار گرم ہو گیا…… یہ سب کچھ آناً فاناً ہوا اور اس ہوشربا انقلابی تبدیلی کو تو ابھی پوری ایک صدی بھی نہیں گزری…… 1939ء کو دنیا کی دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تھی اور اس کو ایک صدی تک کھینچ کر لے جانے میں ابھی 19،20 برس باقی ہیں …… لیکن ان تمام ہنگاموں اور جوابی ہنگاموں میں پیادہ سپاہی کا رول ہمیشہ مرکزی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ عارضی طور پر بعض وقفوں (Spells) میں اس کا کردار کچھ گہناتا یا گھٹتا رہا لیکن جب ذرا مطلع صاف ہوا تو پتہ چلا کہ:
دریچوں پر وہی خورشیدِ عالمتاب ہے روشن
وہی مہتاب ہے جو بام و در پر جگمگاتا ہے
آج سائنس، ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس کے شعبے کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جس طرح آج روبوٹ پوری کی پوری کار (یا ہوائی جہاز، ٹینک اور توپ وغیرہ) کو اسمبلی لائن سے باہر لے آتے ہیں اسی طرح آنے والے کل میں محض چند افراد دشمن کی افواج اور ان کے جنگی ساز و سامان (Equipment) کو چند الیکٹرانک آلات کے توسط سے برباد کرنے پر قادر ہو جائیں گے۔ لیکن اس امکانی صورتِ حال پر امریکہ کے ایک موقر عسکری میگزین The Parade میں ایک عسکری تجزیہ نگار نے بہت فکر انگیز تبصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
”اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دورِ حاضر اور آنے والے دور میں الیکٹرانک جنگ و جدل کا میدان بہت وسیع و عریض اور سحر انگیز ہو گا۔ اگرچہ اس میدان میں استعمال کیا جانے والا اسلحہ، ساز و سامان، ٹیکنیکس اور ایمونیشن بہت حساس، پیچیدہ اور بے حد نازک قسم کا ہوگا۔ لیکن انفنٹری سولجر کو اس تمام صورتِ حال سے نہ بددل ہونا چاہیے اور نہ خوف زدہ…… مستقبل کی جنگ کے ابتدائی ایام میں شاید ہائی ٹیک ہتھیار برق رفتاری سے کام کریں اور آناً فاناً جنگی منظر کو بہت حد تک تبدیل کرنے کی کوشش بھی کریں۔ لیکن چند ہفتوں کے بعد جوں جوں جنگ طول پکڑے گی، یہ ہائی ٹیک ہتھیار، یہ الیکٹرانک آلات اور یہ حساس اور پیچیدہ مشینیں بالکل اسی انجام سے دوچار ہوں گی جو صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ ان میں سے اکثر مرمت طلب ہو کر ورکشاپوں میں چلی جائیں گی اور جو باقی بچیں گی وہ دلدل،
ریت، کیچڑ اور برف باری کی زد میں آکر ناکارہ ہو جائیں گی…… اگر کوئی چیز اس افراتفری میں باقی
بچے گی تو وہ وہی سخت جان رائفل بٹالین ہو گی جو اپنا وجود برقرار رکھے گی اور فی الحقیقت ’ملکہ ء جنگ‘ (Queen of Battle) بن کر ابھرے گی“۔