کیا اللہ نے ہماری روزی یورپ میں جا رکھی ہے؟؟ 

کیا اللہ نے ہماری روزی یورپ میں جا رکھی ہے؟؟ 
کیا اللہ نے ہماری روزی یورپ میں جا رکھی ہے؟؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اپنی کوتاہیوں اور مسلط رہزنوں کی وارداتوں کو نصیب اور قسمت کا نام مت دو!!!
یہ درویش آج اپنے دوستوں، ہم وطنوں اور بالخصوص اپنے حکمرانوں کی توجہ ایک ایسے مسئلے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہے. جو کم از کم میرے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے. اس مسئلے کا تعلق غریبوں اور بالخصوص نوجوانوں کے ساتھ ہے. اس ملک کو لوٹنے والی اشرافیہ تو عیش کرتی ہے.مگر تمام مصیبتیں صرف غریبوں کے لیے ہیں (نوٹ: میرے نزدیک غربت اللہ نہیں دیتا بلکہ ریاستی اور بین الاقوامی نظام ہی غربت کے ذمہ دار ہیں)


ہمارے ہاں بچے پیدا کرنے کے پیچھے مرکزی سوچ یہ ہوتی ہے. کہ یہ بچے ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے، بالخصوص لڑکے زیادہ سے زیادہ پیدا کرنے کی خواہش کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ یہ لڑکے ہمارے دست و بازو بنیں گے. جو لڑائی جھگڑے سے کمائی تک ہمارے کام آئیں گے. اور اس سوچ کے درپردہ ریاست کی ناکامی کا کردار ہے. جب ریاست اپنے فرد کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر افراد اپنے تحفظ کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ سوچتے ہیں. اگر ہم تھوڑا ماضی میں جھانکیں تو اکثر والدین اپنے بیٹوں کو بہت چھوٹی عمر میں ہی کہیں کام پر لگوا دیتے تھے(اب بھی بہت زیادہ بچے کام کر رہے ہیں) اور ان کی کمائی سے گھر چلاتے تھے.مگر اب کچھ بہتری آئی ہے. اب بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجا جاتا ہے. اور ان کے جوان ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے. دراصل یہ موضوع بہت طویل ہے اس لیے میں اصل مسئلے کی طرف آتا ہوں. ہمارے ہاں تمام والدین کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بیٹا یا بیٹے بیرون ملک بالخصوص یورپ چلے جائیں بھلے اس راستے میں انہیں کتنے مصائب سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے. یہاں تک کہ جان کی بازی ہار جانے کے بھی خطرات سامنے ہوتے ہیں. پھر یہ نوجوان جن کے والدین نے قرض اٹھا کر، اپنی جمع پونجی لگا کر یا اپنی جائیداد بیچ کر ایجنٹوں کے ذریعے بھیجا ہوتا ہے. جگہ جگہ مصائب سے گزرتے ہیں. کئی مارے بھی جاتے ہیں. ایران، ترکی، یونان یا کسی افریقی ملک کی سرحد پر گولیوں کا نشانہ بن جائیں یا کسی سمندر میں ڈوبنے والی کشتی میں سمندری مخلوق کی خوراک بن جائیں. اگر جان بچا کر کسی ملک میں داخل ہو بھی گئے تو شاید وہاں کی پولیس یا غنڈوں کے ہتھے چڑھ کر قید کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑ جائے. آج کل ایک اور فراڈ بھی عام ہے. ایجنٹ 10 سے 15 لاکھ لیکر بندہ لے جاتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد بتاتے ہیں کہ بندہ کسی افریقی ملک میں غنڈوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے. جو تاوان لیکر چھوڑیں گے لہذا اگر آپ نے اپنا بیٹا چھڑانا ہے تو مزید پانچ لاکھ دیجیے.

اب مریں یا کیا کریں؟ جن کا جگر گوشہ عذاب میں پھنسا ہو ان کو پھڑکن کیا کہے؟ فرض کریں بندہ ان تمام مصیبتوں سے بچ کر یا ان سے نکل کر یونان، اٹلی، سپین یا پرتگال پہنچ ہی گیا تو کیا وہاں کوئی خزانہ اس کا منتظر ہوگا؟؟ نہیں بلکہ اب اسے اور قسم کی مشکلات کا سامنا ہوگا، ادھر والدین مبارکیں لے رہے ہوں گے کہ ہمارا بیٹا یورپ پہنچ گیا ہے اور ادھر بیٹا نصیب کا مارا خاندان کے نصیب سنوارنے کے لیے ٹکریں مار رہا ہوگا. اسے سر چھپانے اور پیٹ کی آگ بجھانے کی فکر ہوگی، پھر ہمارا دین داؤ پر لگے یا ملکی ساکھ برباد کرنی پڑے ہم ہر طرح کا جھوٹ بول کر اس ملک کے کاغذات یا پناہ کے لیے سب کچھ داو پر لگا دیں گے. اس کے بعد پھر نصیب کے سیٹ ہوتے ہیں یا مشکلات کے اگلے سفر پر نکلنا پڑتا ہے. یہ خاکسار ایسے بیسیوں نوجوانوں (جو اب بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں) کو جانتا ہے. جو کاعذات ملنے کے انتظار میں دہائیوں سے بیٹھے ہیں اور پیچھے ان کے والدین کا انتقال ہو چکا، اگر شادی شدہ ہیں تو بچے والد کی شکل دیکھے بغیر جوان ہو گئے اور بیویاں بن سنورے اپنی جوانیاں گنوا بیٹھی ہیں. کہاں گئے ہمارے رشتے اور انسانی حقوق؟ انسانی خصلتوں، ضروریاتِ اور فطرت کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ایک شادی شدہ لڑکی کی ضروریات کیا ہوتی ہیں اور اس کے ارمان کیا ہوتے ہیں؟ بچوں کی نفسیات کیا ہوتی ہیں اور ان کی ضروریات کیسی ہوتی ہیں؟ اب ہزار ملین کا سوال یہ ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے ہی نصیب ایسے کیوں ہیں؟ کیا اللہ نے ہمیں اس ملک میں پیداکر کے ہمارے نصیب کا رزق کسی اور ملک میں جا رکھا ہے؟ یا پھر اللہ ہمیں پیدا کرنے کے بعد ہماری روزی لکھنا نااعوذباللہ بھول گیا تھا. اس لیے ہمیں اپنی روزی کی تلاش میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے؟


اگر مجھے علماء کرام کے فتووں کا ڈر نہ ہو تو میں اعلانیہ لکھوں اور بولوں کہ یہ غربت ہمیں اللہ نے نہیں دی بلکہ دنیا کے سامراجی رویوں اور ہماری ریاست پر ناجائز قابص سامراج کے دلالوں نے ہمارے نصیب بگاڑے ہیں. لکھنے کو تو بہت کچھ ہے. مگر پڑھنے والوں کے حوصلے کو دیکھتے ہوئے اختتام کرتا ہوں. اگر کوئی دوست غلطی سے پوری تحریر پڑھ لے تو سوچے ضرور، اپنے بچوں سے محبت نہیں کر سکتے تو پیدا مت کرو. اپنی کوتاہیوں اور اپنے راہزنوں کی وارداتوں کو نصیب اور قسمت کا نام مت دو.

مزید :

رائے -کالم -