اک نیا سویرا ہونے کو ہے 

      اک نیا سویرا ہونے کو ہے 
      اک نیا سویرا ہونے کو ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 آج ہمارے ملک کی تاریخ نئے انداز سے لکھی جا رہی ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ ا س کے دُور رس نتائج جلد ساری قوم کے سامنے آجائیں گے۔یہ اثرات صرف سیاست کے میدان میں ہی نہیں نظر آئیں گے بلکہ معاشرے کے ہر میدان میں ایک انقلاب کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔یہ تبدیلیاں ہمارے موجودہ سماجی سیٹ اپ،ذہنی بلوغت، معاشی سوچ،طبقاتی نظام میں ایک نیا اور مثبت رنگ لے کر آئیں گی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ ایک نئی سوچ کو پروان چڑھانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں جس میں ذاتی پسندو نا پسند کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا بلکہ ملکی و عوامی مفادات کو مقدم رکھا جائے گا۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پچھلے چند ماہ میں اپنے متحرک اور جاندار کردار سے ثابت کیا ہے کہ وہ ملکی سلامتی اور عوامی فلاح کے لیے ہر دم تیار ہیں۔پاکستان کی بگڑی معیشت کو سنبھالا دینے میں آرمی چیف کی دلچسپی کے مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں اور مختلف شعبوں پر قابض استحصالی قوتیں پسپائی اختیار کرتی نظر آتی ہیں۔ سمجھ لیں!روایات تبدیل ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اب فرعونیت نے غرق ہونا ہے اورنمرود نے مرنا ہے۔وقت بتاتا ہے کہ موسیٰ کا عصا اپنا کام دکھائے گا۔ یہ بھی درد ناک حقیقت ہے کہ پچھلے چند ماہ میں عوام الناس مشکلات کا شکار رہے مگر بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے کہ شہنشائیت اور فسطائیت کا دُور گزر چکا ہے۔اب رعونت نے پاؤں تلے کچلے جانا ہے، اکڑی گردنوں نے جھک جانا ہے،غرور کا نشہ اُترنا ہے،طاقت کا خمار ختم ہونا ہے اورایک نیا سویرا نکلنا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستانی قوم کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔اس قوم کی رگوں میں آج بھی اپنے زندہ وجاوید اسلاف کا وہ خون حریت دوڑ رہا ہے جو دشمنوں کوجڑ سے اُکھاڑ پھینکے اور ذلت آمیز شکست سے ہمکنار کرے۔ان کے ہاتھوں میں ابھی بھی اتنی سکت باقی ہے کہ یہ سومنات کے بُت توڑ سکیں۔ان کے کردار ابھی بھی اتنے مضبوط ہیں کہ ساحل پر پہنچ کر اپنی کشتیاں جلا دیں،کیونکہ یہ اُن افراد کے پیروکار ہیں جن کی زندگیاں قیامت تک سارے عالم کے لیے مشعل راہ ہیں۔آج بھی اس قوم کو اگرسچی اور مخلص قیادت نصیب ہو جائے تو ایک بار پھر سے اسلام کے سنہری دُورکا آغاز ہو سکتاہے۔ 

”ؓایک روایت میں آتا ہے کہ ایک غلام تھا،دُودن وہ کام پر نہ گیا تو اُس کے مالک نے سوچا کہ مجھے اُس کی تنخواہ میں اضافہ کر دینا چاہیے تاکہ وہ دلجمعی سے اپنا کام کرے اور آئندہ یوں غائب نہ ہو۔جب ناغہ کے بعدغلام کام پرواپس آیا تو مالک نے زیادہ پیسے دیے جوغلام نے خاموشی سے رکھ لیے۔چند ہفتوں بعد غلام دوبارہ غیر حاضر ہوا تو مالک کو بہت غصّہ آیا اور اُس نے تنخواہ میں کیا گیا اضافہ واپس لے لیا۔غلام کو اب پہلے والی تنخواہ ملنے لگی۔ غلام نے پھر بھی خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ایک دن مالک نے پوچھا کہ جب میں نے تنخواہ میں اضافہ کیا تب بھی تم خاموش رہے اور اب کمی پر بھی خاموش ہو۔آخرکیوں؟؟۔تب غلام بولاجب میں نے پہلے چھٹی کی تھی تو اُس کی وجہ میرے ہاں بچے کی پیدائش تھی اور آپ کی طرف سے تنخواہ میں اضافہ کو میں نے وہ رزق خیال کیا جو میرا بچہ اپنے ساتھ لے کر آیا۔ جب میں نے دوسری بار چھٹی کی تو وجہ میری ماں کی وفات تھی۔ آپ کی طرف سے تنخواہ میں کمی کو میں نے خیال کیا جو  وہ رزق میری ماں اپنے ساتھ لے گئی۔چنانچہ میں اُس رزق کے بارے میں کیوں پریشان ہو جاؤں کہ جس کا ذمہ خُود اللہ تعالیٰ نے اُٹھایا ہے“۔ یہ تو اُس شخص کی سوچ ہے جو دین کو سمجھتا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری قو م کے رہنماؤں کو نہ تو زور حیدرؓ نصیب ہو سکا،نہ ہی اُن سے فقر بوذر ؓکا ذائقہ چکھا گیا اُور نہ ہی انھیں صدق سلمانیؓ کی نعمت مل سکی۔یہ دنیا چار دن کی اور اس کے سب اسباب و وسائل کی حقیقت اور زندگی بھی عارضی اور فانی ہے۔یہ زمانے کی ستم ظریفی ہے یا ہمارا حسن ظن کہ ابھی تک انسان اس فریب سے باہر ہی نہیں آ رہا۔اس چند روزہ زندگی کی عارضی چیزوں پر جس نے بھروسہ کیا،دراصل اُس نے خطا کی اور جس نے خطا کی وہ سزاوار ٹھہرا۔ یہ سب خدا کے قوانین ہیں اور اسی طرح یہ دنیا کی بھی ریت اورقانون ہے کہ غلط کار کو اپنی سزا پانی ہے اور پھر خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے جانا ہے۔من حیث القوم ہماری بڑی بد قسمتی ہے کہ نہ ہم دین میں پوری طرح داخل ہو سکے اور نہ دنیا میں۔آدھے دین میں ہیں اور آدھے دنیا میں۔”نہ تین میں نہ تیرہ میں“۔”آدھا تیتر اور آدھا بٹیر“ والی مثال کے مطابق اپنی زندگی کا پہیہ چلا رہے ہیں۔مزید بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمیں قیادت کے نام پر جوآلودہ اور بیمار ورثہ ملا ہے وہ بھی دنیا داروں اور تخت نشینوں کی میراث کے مالک ہیں۔اُن کی زندگیوں میں اخلاقیات اور دین کا عمل دخل صرف اتنا ہوتا ہے جتنا اُن کے لیے ضروری اور فائدہ مند ہو۔جس جگہ اُن کے ذاتی مفادات پر ضرب لگتی ہو،انہیں وہاں رُک جانا ہوتا ہے۔جب اس طرح کی بانجھ اور خُود غرض قیادت کے نیچے مسلم قوم پرورش پائے گی تو پھر یقیناًصلاح الدین ایوبی،اورنگ زیب عالمگیر،نورالدین زنگی اور دیگر اکابرین کی رُوحیں ً تڑپتی ہوں گی۔ہائے! کس  قدر مفلسی ہے  اس قوم کے دامن میں کہ جس کے ماتھے کے جھومر کبھی قائداعظم، علامہ اقبال، سردار عبدالرب نشتر اورمولانا ظفر علی خان جیسے روشن کردار انسان ہوتے تھے۔آج یہ قوم بین کر رہی ہے، محمد بن قاسم اورطارق بن زیاد کوپکار رہی ہے۔اک آس ہے، اک اُمید ہے کہ شائد تاریخ کا چکر اُلٹا چل پڑے اور ایک بار پھر سے اسلاف کے زندہ کردار،نئے چہروں کے ساتھ ہماری زندگیوں میں جلوہ گر ہو جائیں۔

مزید :

رائے -کالم -