یہاں وطن سے محبت، خلوص، ایمانداری کا کوئی تصور ہی نہیں جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک میں ہر جگہ انسانیت کی بھلائی اور بہبود کیلیے کام ہو رہا ہے

Sep 28, 2024 | 09:53 PM

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:37
بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملک میں آنے کا محض ایک ہی جذبہ اور تصور ہوتا ہے کہ اپنے ملک کی کوئی خدمت کر سکیں مگر یہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ اقربا ء پروری کا دور دورہ ہے۔ وطن سے محبت، خلوص، ایمانداری کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے جبکہ امریکہ، یورپی ممالک، کینیڈا، آسٹریلیا یہاں ہر جگہ انسانیت کی بھلائی اور انسانی بہبود کے لئے کام ہو رہا ہے۔ مذہب ہر جگہ ذاتی اور نجی فعل ہے۔ اولیت انسان ہونے کو حاصل ہے۔ شرف انسانیت سب سے زیادہ بلند مرتبہ رکھتا ہے۔ وہاں چرچ بھی ہیں اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں بھی مگر یہ سب انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اللہ کے بندوں کے خدمت گار ہیں۔ 
اب ہم اپنی حالت کو دیکھیں تو کیا واقعی ہم بھی اللہ کے بندوں کے خدمت گارہیں ……؟ یورپ اور دیگر ممالک میں رہنے والے ایشیائی باشندے زیادہ تر بے کاری الاؤنس اور مغربی ممالک کی چیرٹی سے فائدہ اٹھانے کے لئے وہاں بیٹھے ہیں۔ کیا ہمارے ملک میں بھی ہم ایسے غیر ملکیوں کا ہجوم دیکھنا برداشت کر سکتے ہیں جو صرف بے کاری الاؤنس اور چیریٹی حاصل کریں۔ ہمارے مسلمان ممالک سے مسلمانوں کو جو وہاں کے رہنے والے نہیں ہیں نوکریوں سے نکالاجا رہا ہے۔ مسلمان ممالک میں کوئی غیر ملکی گھر کرائے پر لے سکتا ہے، خرید نہیں سکتا۔
 ہمارے پاکستانیوں کی یورپ اور امریکی ممالک میں بے شمار املاک ہیں۔ وہاں مسجدیں ہیں، مدرسے ہیں۔ کیا ہم اپنے ملک میں غیر مذاہب کے تعلیمی ادارے کھول سکتے ہیں …… نہیں …… ہر گز نہیں۔ کیونکہ ہمارے ملک میں فرقہ پرستی ہے۔ مذہبی تعصبات بہت زیادہ ہیں۔ معاشرہ برادری ازم کے تابع چل رہا ہے۔ قرضہ حاصل کر کے اپنی ذات پر خرچ کر دیتے ہیں۔ بے شمار سکیموں پر عملدرآمد ہو رہا ہے جو بظاہر اچھی ہیں مگر عوام کو نہ اس کی ضرورت تھی اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے۔
ہمارے ملک میں 4 دفعہ مارشل لاء نافذ کیا گیا ہے جب بھی ملٹری ڈکٹیٹر نے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور منتخب حکومتیں برخاست کرنے کا اقدام کیا ہے تو فوری طور پر جو لوگ فوجی آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے سب سے پہلے سامنے آتے ہیں وہ سیاست دان ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے قانون دان آمروں کے لئے راہ نما کردار متعین کرتے ہیں اور ہماری اعلیٰ جوڈیشری، جج صاحبان پیش پیش ہوتے ہیں اور فوجی حکومتوں کو جائز ثابت کر کے انہیں طویل عرصہ تک کام کرنے کا جواز مہیا کرتے ہیں اور اس پر شرمندہ ہونے اور قوم سے معافی مانگنے کی بجائے فخر محسوس کرتے ہیں اور بڑے نامور جج صاحبان فوجی آمروں کے حق میں فیصلہ کر کے اسے لینڈ مارک فیصلے قرار دیتے ہیں۔
 دنیا کی کوئی بھی مہذب قوم اس روئیے کو صحت مند اور قابل فخر قرار نہیں دے سکتی۔ ہمارے سیاست دانوں، لیڈروں اور ایسے قانون دانوں و ججوں کو اپنے اس رویہ کی قوم سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں